کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 111
سراہا تو میں نے اس سے مخاطب ہو کر کہا: میں اور آپ علم و حق اور ہدایت کے طالب ہیں ۔ شیعہ کا قول ہے کہ جو امام منتظر پر ایمان نہیں رکھتا وہ کافر ہے۔ بتائیے ! کیا آپ نے کبھی اسے دیکھا یا ایسے شخص کو دیکھا جس نے امام کو دیکھا ہو؟ یا اس کی کوئی خبر سنی یا اس کی گفتگو کا کچھ علم ہوا؟ یا جس چیز کا اس نے حکم دیا ہے‘ اور جس چیز سے منع کیا ہے وہ اس سے ایسے ہی ماخوذ ہے جیسے دوسرے ائمہ کا کلام ان سے ماخوذ ہے؟ شیعہ نے کہا: ’’ نہیں ۔‘‘ میں نے کہا :’’پھر ایسے ایمان کا کیا فائدہ اور اس کے ذریعہ ہم پر اﷲ کی کون سی مہربانی ہوئی؟ مزید برآں اﷲ تعالیٰ ہمیں ایسے شخص کی اطاعت کا مکلف کیوں کر کرتا ہے جس کے امرو نہی سے ہم ناواقف ہیں ، اور اس کی پہچان کا کوئی طریقہ ممکن نہیں ۔ حالانکہ شیعہ تکلیف مالا یطاق کا شدید انکار کرتے ہیں ، کیا اس سے زیادہ تکلیف مالا یطاق بھی کوئی ہو سکتی ہے؟ شیعہ: اس امر کا اثبات تو انہی مقدمات پر مبنی ہے جو آپ نے ذکر کیے ہیں ۔ شیخ الاسلام: مگر مقصود چیز تو وہی ہے جو ہم سے متعلق ہو؛ اگر امر و نہی ہم سے وابستہ نہ ہو تو ہمیں اس سے کیا سروکار ہے؟ جب ان مقدمات کا تذکرہ کسی فائدہ سے خالی ہے؛اس سے ہمیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا‘ اور نہ ہی کوئی مہربانی حاصل ہوئی سوائے تکلیف مالا یطاق کے۔ تو معلوم ہوا کہ امام منتظر پر ایمان لانا جہالت کی کرشمہ سازی ہے، اور اس کا لطف و عنایت ایزدی اور مصلحت سے کوئی تعلق نہیں ۔ اگر وہ بات درست اور موجب سعادت ہے جو امامیہ اپنے اکابر سے نقل کرتے چلے آئے ہیں ، تو امام منتظر کی کوئی ضرورت نہیں ۔اور اگر یہ نقل باطل ہے تو شیعہ بھی اپنے اس امام منتظر سے کچھ فائدہ حاصل نہیں کرسکے۔ نہ ہی انہیں حق کے اثبات میں اس امام منتظر سے کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہی باطل کی نفی کرنے میں ؛ نہ ہی امر بالمعروف اور نہ ہی نہی عن المنکر میں ۔ اور نہ ہی امامیہ میں سے کسی ایک کے لیے امامت سے مطلوب ومقصود مصلحت ؛ لطف اور منفعت حاصل ہوسکے۔ وہ جاہل لوگ جو اپنے معاملات کو مجہولات سے معلق کررکھتے ہیں ‘جیسا کہ غائب لوگ ؛جیسے قطب ‘ ابدال ‘ غوث اور خضر وغیرہ اس طرح کے دیگر لوگ۔ یہ لوگ بھی اپنی جہالت و گمراہی کے باوجود ایسی باتیں ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں جن سے نہ ہی کوئی مصلحت حاصل ہوئی ‘ نہ کوئی مہربانی؛ اورنہ ہی کوئی دین یا دنیا کا فائدہ ۔ لیکن اس کے باوجود یہ لوگ جہالت و گمراہی میں رافضیوں سے کم تر ہیں ۔ حضرت خضر موجود تھے۔ ان کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے۔ ان کے قصے میں بڑی عبرتیں اوردرس اور فوائدہیں ۔ کبھی ان میں سے کوئی کسی نیک انسان کو دیکھتا ہے تو وہ گمان کرتا ہے کہ یہ خضر ہیں ۔ پس اب ان کو دیکھنے سے اور ان کے وعظ سے اسے کوئی فائدہ ہوگا۔ اگرچہ یہ اپنے اس عقیدہ میں غلط ہے۔ حقیقت میں اس نے جنات میں سے کسی جن کو دیکھا ہوتا ہے؛ اوروہ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ یہ خضر تھے۔اورجن