کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 110
اہم ترین امور میں سے ہو یا نہ ہو۔ جب کہ رافضی ان مصلحتوں کے حصول سے بہت دور ہیں ۔ ان سے ان کے قول کے مطابق بہت سے اہم ترین مطالب اور مسلمانوں کے اشرف ترین مسائل فوت ہوئے ہیں ۔ [شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ایک شیعہ کا مناظرہ]: بعض اکابر فضلاء شیعہ نے مجھ سے تنہائی میں ملاقات کی اور دینی مسائل پر گفتگو کا تقاضا کیا۔میں نے شیعہ کے نظریات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہاکہ: اﷲ تعالیٰ نے لوگوں کو نیک کاموں کا حکم دیا اور منہیات سے روکا، لہٰذا ضروری تھا کہ وہ بندوں پر مہربان ہوتا؛ جس کی وجہ سے لوگ فعل واجب اور ترک قبیح کے قریب تر ہوتے۔اس لیے کہ جو کوئی کسی شخص کو کھانے کی دعوت دے ‘ اگر اس کی مراد کھانا کھلانا ہو تو وہ اسباب برؤئے کار لائے گا جو کھانے کے لیے ضروری ہیں ۔جیسے خندہ جبین سے استقبال کرنا ‘مناسب جگہ پر بٹھانا ؛ اور اس طرح کے دیگر امور ۔ اگر اس کا مقصود کھانا کھلانا نہ ہو تو اس کے چہرہ پر سلوٹیں پڑ جائیں گی ‘ اور وہ دروازہ بند کردے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ انہوں نے یہ باتیں معتزلہ سے لی ہیں ۔ ان کے پرانے شیوخ کے اصولوں میں یہ باتیں شامل نہیں ہیں ۔ پھر کہا: ’’ امام بھی لوگوں پر عنایت الٰہی کی ایک علامت ہے۔ اس لیے کہ امام و اجبات کا حکم دے گا اور برے اعمال سے روکے گا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ شرعی اوامرو اعمال کی اطاعت کریں گئے۔ لہٰذا امام کا وجود از بس ناگزیر ہے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ امام معصوم ہوتا کہ مقصد حاصل ہو سکے۔ ظاہر ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد معصوم صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے[کسی اور کے لیے یہ دعوی نہیں کیا گیا]۔ لہٰذا آپ کا امام ہونا متعین ہوا اس پر اجماع منعقد ہو چکا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا اور کوئی معصوم نہیں ۔[اور اس باب میں بڑی تفصیلی گفتگو کی]۔پھر کہتے ہیں : حضرت علی نے حسن رضی اللہ عنہ کو معصوم قرار دیا، حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو یہاں تک کہ نوبت امام منتظر محمد بن حسن صاحب غار تک پہنچی۔ شیعہ نے تقریر سن کر اعتراف کیا کہ ان کے مذہب کے بیان کے مطابق یہ بڑی اچھی تقریر ہے۔ [شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں ] : جب میں نے شیعہ[1]کے طرز استدلال کو بیان کیا اور شیعہ نے اسے
[1] شیخ الاسلام نے شیعہ کے طرز استدلال کو اس لیے واضح کیا تاکہ اسے مناظرہ کی اساس قرار دیا جا سکے، یہ غلط ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے امام حسن رضی اللہ عنہ کے معصوم ہونے کی صراحت کر دی تھی۔ امام احمد اپنی مسند میں عبداﷲ بن سمع سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنا وہ اپنی شہادت کا ذکر کر رہے تھے لوگوں نے کہا: ’’ہم پر خلیفہ مقرر کر دیجئے ‘‘ فرمایا :نہیں ، میں تمہیں اسی طرح چھوڑ جاؤں گا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں چھوڑا تھا، لوگوں نے کہا آپ اﷲ کے دربار میں حاضر ہو کر اسے کیا جواب دیں گے؟ فرمایا میں عرض کروں گا کہ بار خدایا تو نے جب تک چاہا مجھے زندہ رکھا پھر فوت کر لیا اور تو ان میں موجود تھا اگر تو چاہتا تو ان کی اصلاح کرتا اور اگر چاہتا بگاڑ دیتا۔‘‘مسند احمد(۱؍۱۳۰) طبقات ابن سعد(۳؍۲۴) مجمع الزوائد(۹؍۱۳۷) امام احمد نے اسی قسم کی روایت بطریق اسود بن عامر نقل کی ہے، دونوں روایات کی سند صحیح ہے، (العواصم من القواصم: ۱۹۹)