کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 109
امامت آخری مرتبہ ہے ‘ جب کہ توحید ‘ عدل اورنبوت کا درجہ اس سے پہلے کا ہے۔ یہ لوگ توحید میں صفات الٰہیہ کی نفی کو داخل کرتے ہیں ۔اور یہ کہ قرآن مخلوق ہے ۔اور یہ کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار نہیں ہوگا۔اور عدل میں قدر کی تکذیب کو شمار کرتے ہیں ۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر نہیں ہے کہ وہ جسے چاہے ہدایت سے نواز دے۔ اور نہ ہی کسی کو گمراہ کرنے پر قادر ہے۔ اور کبھی اللہ تعالیٰ ایسی چیز کو چاہتے ہیں جو نہیں ہوسکتی۔ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر بھی نہیں ہے۔ اور نہ ہی ایسے ہے کہ جوکچھ اللہ تعالیٰ چاہے وہ ہوجائے۔ اور جو نہ چاہے وہ نہ ہو۔لیکن اس کے باوجود توحید ‘ عدل اور نبوت امامت پر مقدم ہیں ۔ تو پھر امامت کیسے اشرف ترین اور اہم ترین مسائل میں سے ہوسکتی ہے ؟
مزید برآں کہ امامت کو اس وجہ سے واجب قرار دیتے ہیں کہ اس سے واجبات کی ادائیگی میں مہربانی اور لطف ہوتا ہے۔ پس امامت ایسے ہی واجب ہوگی جیسے باقی وسائل واجب ہوتے ہیں ۔تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وسیلہ مقصود سے بڑھ کر اہم ترین اور اشرف ترین ہو؟
مسئلہ امامت میں رافضی تناقض:
تیسری وجہ : ان سے کہا جائے گا کہ: اگرامامت اہم ترین مطالب دین اور اشرف ترین مسائل مسلمین میں سے ہے توپھر ان اہم مطالب اور اشرف مسائل سے لوگوں میں سب سے زیادہ دورخود رافضی ہیں ۔اس لیے کہ انہوں نے امامت کے مسئلہ میں ایسے حقیر اور گھٹیا قول گھڑلیے ہیں جو کہ عقل اور دین ہر لحاظ سے فاسد ہیں ۔ اس کا بیان ان شاء اللہ آگے آئے گاجب ہم ان کے دلائل پر رد کریں گے۔ بس یہاں پر اتنا سمجھ لیناکافی ہوگا کہ امامت سے ان کا مقصود یہ ہے کہ ان کابڑا معصوم ہو۔ اور ان کے دین و دنیا کے مسائل میں لطف و مہربانی[نرمی] ہو۔ اس لیے یہ ایک ایسے مجہول و معدوم کے لیے حیلے گھڑتے ہیں نہ جس کی ذات کا کوئی اتا پتا ہے ‘اورنہ ہی جس کاکوئی نام و نشان دیکھنے میں آیا ہے؛ نہ ہی اس کی کوئی خبر سنی گئی ہے ‘اورنہ ہی کوئی حس محسوس ہوئی ہے۔ تو اس بنا پر انہیں مقصود امامت میں سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔اور اگر کوئی ایسا نفع بخش امام بنالیاجائے جس سے بعض دنیاوی اور دینی مصلحتیں حاصل ہوجائیں ؛ وہ اس امام سے بہت بہتر اور بڑھ کر ہے جس سے امامت کی کوئی مصلحت حاصل نہ ہو۔
اسی لیے آپ امامیہ فرقہ کے لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ امامت کی مصلحتیں فوت ہوجانے کے سبب اپنے مقاصد کی بار آوری کے لیے کبھی کسی کافر کی اطاعت اختیار کرتے ہیں او رکبھی کسی ظالم کی۔ حالانکہ دوسری طرف وہ لوگوں کو امام معصوم کی اطاعت کی طرف دعوت دیتے ہیں ؛ او رخود کفار اور ظالمین کی اطاعت اختیار کرتے ہیں ۔پس کیاان لوگوں سے بڑھ کر کوئی مقصود امامت اور خیرو کرامت سے دور ہوسکتا ہے جو اس مسلک ندامت پر چلنے والے ہوں ؟
اجمالی طور پر اللہ تعالیٰ نے بعض دینی اور دنیاوی مسائل کو حکمرانوں کے ساتھ معلق کردیا ہے؛ خواہ امامت