کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 106
بعض صوفیاء کا شرک فی ربوبیت :
تیسری بات: یہ بات کہنے والوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں ‘ جن کا کسی بشر کی طرف منسوب کرنا ہر گزجائز نہیں ۔ مثلاً: بعض لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ قطب و غوث ہدایت و نصرت اور رزق میں اہل زمین کی امداد کرتے ہیں اور یہ چیزیں انکے توسط کے بغیر کسی کو حاصل نہیں ہوتیں ۔یہ دعوی باطل ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے ۔ اورایساکہنے والا شخص گمراہ ہے اور اس کا قول اس باب میں نصاریٰ کے قول سے ملتا جلتا ہے۔جیسے کہ ان میں سے بعض لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان اولیاء میں سے کوئی ایک اللہ تعالیٰ کے ہر ولی کو جانتا ہے ‘ جو موجود ہے یا جو ولی ہونے والاہے؛ اس ولی کے نام ‘ اس کے باپ کے نام اور اللہ کے ہاں اس کے مقام و مرتبہ سے بھی واقف کار ہے ۔اوراس طرح کی دیگر کئی باطل باتیں ایسے لوگوں کے عقیدہ میں شامل ہیں ۔جو اس امر کو متضمن ہیں کہ بعض بشر بعض خصائص میں اللہ تعالیٰ کے شریک ہیں ۔ مثال کے طور اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا جاننے والا ہے۔ اور ہر ایک چیز پر قادر ہے ۔ اس طرح کا دعوی بعض لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے شیوخ کے بارے میں کرتے ہیں کہ ان کا علم اﷲکے علم و قدرت پر حاوی ہے اور وہ اسی قسم کے علم و قدرت سے بہرہ ور ہیں جیسے ذات الٰہی۔پس وہ ہر اس چیز کو جانتے ہیں جسے اللہ جانتا ہے ‘اور ہر اس چیز پر قدرت رکھتے ہیں جس پر اللہ تعالیٰ قدرت رکھتا ہے ۔ اس طرح کے عقائد و اقوال بالکل نصاری اور غالی شیعہ کے اقوال کی جنس سے ہیں ۔ اور ان عقائد و اقوال کے باطل ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے ۔
اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جوایسی کرامات ‘ مکاشفات اور اجابت دعاء کے قصے اور ان کی طرف ایسی چیزیں منسوب کرتے ہیں جن کا کسی نبی یا نیک مسلمان کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ۔ یہ لوگ ایسی باتیں کسی معدوم کی طرف منسوب کرنے میں اگرچہ خطاء کار ہیں ؛ لیکن ان کی خطاء اس شخص کی غلطی کی طرح ہے جو یہ گمان رکھتا ہو کہ فلاں شہر میں اولیاء اللہ ہیں ‘ حالانکہ وہاں کوئی بھی نہ ہو۔ یا پھر وہ انسان جو کہ بعض لوگوں کے متعلق گمان رکھتا ہوکہ وہ اولیاء اللہ ہیں ‘ مگر وہ اولیاء اللہ نہ ہوں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کے اعتقادات و خیالات گمراہی ؛ جہالت اور خطا ہیں جن میں بہت سارے لوگ مبتلا ہیں ۔ لیکن امامیہ کی خطاء اور گمراہی ان سب سے بڑھ کر اور قبیح ہے۔
الیاس اور خضر کی وفات:
چوتھی بات:محققین علماء کرام رحمہم اللہ کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ حضرت خضر و الیاس علیہماالسلام فوت ہو چکے ہیں ۔[1]
[1] سنت اﷲ یہی چلی آتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام یا غیر انبیاء سب وقت مقرر پر فوت ہوجاتے ہیں ، جو شخص دین اسلام کی طرف ایسی نص منسوب کرے جو اس کے خلاف ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اسے منظر عام پر لائے۔ حقیقت یہ ہے کہ صحیح حدیث میں ایسی کوئی نص موجود نہیں ہے۔