کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 105
الیاس، حضرت خضر اور غوث و قطب بزرگوں اور دوسرے غائبین پر ایمان رکھتے ہیں ، حالانکہ نہ ان کے وجود کا کچھ پتہ ہے اور نہ ان کے اوامر نواہی کا۔ پھر جو لوگ ان [صوفیاء] کی موافقت کرتے ہیں ؛ان کیلئے یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ وہ ہمارے دعوی پر رد کرے ؟ [جواب ]: اس سے کہا جائے گا کہ : اس بات کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے : پہلی بات : ہم کہتے ہیں کہ:’’ مسلمانوں کے کسی معروف عالم یا کسی معروف جماعت کے نزدیک ان پر ایمان لانا ضروری نہیں ؛ اور کوئی ایسا بھی نہیں جو ان پر ایمان لانے کو واجب قرار دیتا ہو۔اگرچہ بعض غالی فرقے اپنے اصحاب کے لیے اس چیز پر ایمان رکھنے کو واجب قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ :کوئی مؤمن اس وقت تک اللہ کا ولی نہیں ہوسکتا جب تک ان لوگوں کے اس زمانے میں موجود ہونے پر ایمان نہ لائے۔ [ مگر جمہور مسلمین کے ہاں اس کلام کی کوئی قدر و قیمت نہیں ] ان کا قول اسی طرح مردود ہے جیسے شیعہ کا قول۔ دوسری بات :لوگوں میں سے بعض ایسے ہیں جن کا خیال ہے کہ ان لوگوں کے وجود پر ایمان رکھنے سے انسان کا ایمان ؛ خیر و بھلائی اور اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھتے ہیں ۔ زہاد زیادہ سے زیادہ یہ بات کہتے ہیں کہ:’’ ان کی تصدیق کرنے والاان کے منکر سے زیادہ افضل و اشرف اور کامل ہے۔یہ قول ہر لحاظ سے رافضیوں کے قول کے مشابہ نہیں ہے۔ بلکہ بعض وجوہات کی بنا پر یہ اقوال آپس میں مشابہت رکھتے ہیں ۔اس لیے کہ انہوں نے کمال ِدین کو اس تصدیق پر موقوف کردیا ہے۔ پس اس وقت کہا جائے گا کہ مسلمان علماء اور ان کے ائمہ کا اس قول کے باطل ہونے پر اتفاق ہے۔اس لیے کہ واجبات اور مستحبات کا علم ‘ اور واجبات و مستحبات کا بجا لانا ان کی تصدیق پر موقوف نہیں ہے۔ بعض اہل زہد و عابدین اور عوام الناس کا یہ خیال کرنا کہ دین کی کوئی بھی چیز واجب یا مستحب ان لوگوں کی تصدیق پر موقوف ہے ؛ تو یہ ان لوگوں کی جہالت اور گمراہی پر مبنی قول ہے ‘ اس پرکتاب و سنت کے جاننے والے اہل علم کا اتفاق ہے ۔ اور دین میں یہ بات اضطراری طور پر معلوم اور ایک بد یہی امر ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تصدیق کو مشروع قرار نہیں دیا، اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علماء اسلام میں سے کوئی ایک اس تصدیق کو امور دین میں سے سمجھتا تھا۔اور ایسے ہی : غوث ؛ قطب ؛ اوتاد ؛ نجباء وغیرہ کے یہ تمام الفاظ کسی ایک نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی معروف سند کے ساتھ نقل نہیں کیے؛ اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ اپنی زبان مبارک پر لائے ہیں ؛ اور نہ ہی صحابہ کرام نے۔ لیکن لفظ ابدال بعض سلف سے منقول ہے۔اور اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ضعیف روایت نقل کی گئی ہے ؛ جس پر ہم کئی ایک جگہ پر تفصیلی کلام کر چکے ہیں ۔[1]
[1] یہ حدیث مسند أحمد میں وارد ہوئی ہے: ۲؍۱۷۱؛ تحقیق أحمد شاکر۔سلطان العلماء العز بن عبدالسلام السلمی المتوفی (۵۷۷۔ ۶۶۰) لکھتے ہیں کہ ابدال، غوث، قطب اور نجباء کے ناموں کی دین میں کوئی اصل نہیں اور یہ کسی حدیث صحیح و ضعیف میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ۔