کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 103
واجب کردیا ہو‘ جس میں مسلمان اور دوسرے لوگ سب شامل ہیں ۔ پس اس تقدیر کی بنا پر یہ سب سے پہلے عذاب پانے والے بد بخت ہوں گے۔اس لیے کہ ان میں سے کسی ایک کے لیے بھی اس امام کے احکام اوامر و نواہی اور اخبار کی معرفت حاصل کرنے کی کوئی راہ ہی نہیں جس کے بارے میں ان [شیعہ حضرات] کا عقیدہ ہے کہ امام غائب ہے مگر موجود ہے۔
بلکہ رافضی مشائخ کے ہاں کچھ ایسے اقوال پائے جاتے ہیں جن کے بارے میں ان کے ائمہ متقدمین کہتے ہیں کہ یہ اقوال امام منتظر سے منقول ہیں ۔ حالانکہ امام غائب سے کچھ بھی منقول نہیں ہے ۔ اورجو کوئی یہ کہتا ہے کہ ہم نے امام غائب سے کچھ اقوال نقل کیے ہیں ‘ تووہ اپنے اس دعوی میں حد درجہ کاجھوٹا ہے ۔
روافض سے کہا جائے گا کہ جو شریعت تمہارے پاس موجود ہے اگر دینی ضرورت کے لیے کافی ہے تو امام منتظر کی ضرورت نہیں ، اور اگر ناکافی ہے توتم نے خودہی اپنے معذب اور بد بخت ہونے کا اقرار کرلیا اور اپنے دین کے ناقص ہونے کا اعتراف کر لیا اور یہ تسلیم کر لیا کہ تمہاری سعادت آنے والے امام کے حکم کے تابع ہے اور یہ معلوم نہیں کہ وہ کیا حکم صادر کرے گا۔میں نے رافضہ کے مشائخ کی ایک جماعت کو دیکھا ہے ‘ جیسا کہ ابن العود الحلی؛اس کا قول ہے:
’’جب امامیہ کے کسی مسئلہ میں دو قول میں اختلاف ہو؛ ایک قول کا قائل معلوم ہو اور دوسرے کا نامعلوم ۔تو جس قول کا قائل معلوم نہیں وہی حق ہے،جس کی اتباع کرنا واجب ہے ؛ اس لیے کہ امام معصوم جس کا انتظار کیا جا رہا ہے اسی گروہ میں شامل ہے۔‘‘
یہ ان لوگوں کی جہالت اور گمراہی کی انتہاء ہے۔اس لیے کہ اگر امام منتظر کے وجود کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو پھر بھی یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ اس نے یہ بات کہی ہے یا نہیں ۔اس لیے کہ کسی ایک نے امام سے یہ قول نقل نہیں کیا ۔ اورنہ ہی امام سے نقل کرنے والوں سے کسی نے روایت کیا ہے۔تو پھر یقینی طور پر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اس امام کاہی قول ہے ۔پھر دوسرے قول کے لیے کیسے یہ جائز نہیں ہوسکتا کہ وہ اس امام غائب کا قول ہو؟اس لیے کہ امام کے لیے اس کی غیبت اور ظالموں کے خوف کی وجہ سے اپنے قول کا اظہار کرنا تو نا ممکن ہے ؟ جیسا کہ ان لوگوں کا دعوی ہے ۔
خلاصہ کلام ! شیعہ کا دین مجہول و معدوم پر مبنی ہے۔معلوم اور موجود پر مبنی نہیں ۔ان کا گمان ہے کہ ان کا امام موجود اور معصوم ہے۔درحقیقت امام مفقود اور معدوم ہے۔اور[بالفرض ]اگر وہ موجود اور معصوم بھی ہو؛ تو پھر بھی یہ لوگ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ امام کے اوامر و نواہی جاننے پر ایسے قادر نہیں ہیں جیسے اس امام کے باپ دادا کے اوامر و نواہی جاننے پر قادر تھے۔