کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 102
اطاعت الٰہی کی کوئی راہ ہوتی۔ اور یہ انسان کی طاقت سے بڑھ کر مکلف ٹھہرائے جانے کی سب سے بڑی مثال ہوتی۔حالانکہ لوگ اس کے سب سے زیادہ محتاج تھے۔
[شبہ]: اگر یہ کہا جائے کہ : ’’ امام غائب اسی چیز کا حکم دیتا ہے جس پر امامیہ فرقہ کے لوگ چل رہے ہیں ۔‘‘
[جواب]: تو ان سے کہا جائے گا کہ تو پھر اس امام کے وجود یا شہود کی کوئی حاجت ہی نہیں ۔ اس لیے کہ اگر اس امام منتظر کے بغیر ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخلوق کے لیے آنے والے احکام معلوم ہورہے ہیں تو پھر اس امام کی چنداں ضرورت نہیں خواہ یہ امام زندہ ہو یا مردہ ‘حاضر ہو یا غائب۔نہ ہی اس کی کوئی حاجت باقی رہتی ہے ‘اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور نجات کا دارو مدار یا کسی ایک کی سعادت و شقاوت اس امام کی اطاعت پر منحصر ہے ۔اس صورت حال میں ایسے امام کی امامت کا کہنا ممتنع ہوجاتا ہے۔ چہ جائے کہ اس امام کی اطاعت کو واجب قرار دیا جائے۔ یہ بات ہر اس انسان پر واضح ہے جو معمولی سا بھی غور وفکر کرلے ۔
لیکن رافضی لوگوں میں سب سے بڑھ کر جاہل ہوتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عقلی اور شرعی واجبات کو بجالانااور عقلی و شرعی قبیحات کو ترک کرنا یا تو اس معرفت پر منحصر ہوگا کہ کوئی انہیں اس امام کی طرف سے یہ احکام پہنچائے؛ یا اس پر موقوف نہیں ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس معرفت پر موقوف ہے ‘ تواس سے انسان کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف لازم آتی ہے ۔ اس لیے کہ واجبات کا بجالانا اور محرمات سے اجتناب کرنا ایسی شرط پر موقوف کر دیا ہے جس پر عام لوگ قدرت نہیں رکھتے۔بلکہ کوئی انسان اس پر قادر ہی نہیں ۔کیونکہ جہاں میں کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جو صداقت کے ساتھ یہ دعوی کرسکے کہ اس نے امام منتظر کو دیکھا ہے یا اس کا کوئی کلام سنا ہے ۔
اگر ایسا نہ ہو کہ عقلی و شرعی واجبات کا بجالانا اور عقلی و شرعی منکرات کا ترک کرنا[اس امام کی معرفت پر موقوف نہ ہو] امام منتظر کے بغیر بھی ممکن ہو ؛ تو پھر اس کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی اور نہ ہی اس امام کے وجوب یا شہودکی ضرورت ہوتی ہے ۔
ان رافضہ نے مخلوق کی نجات ‘ان کی سعادت اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو ایسی ممتنع شرط کے ساتھ معلق کردیا ہے جس پر لوگ قدرت نہیں رکھتے اور نہ ہی رافضیوں میں سے کوئی ایک اس پر قدرت رکھتا ہے ۔
اور لوگوں سے کہتے ہیں : اس کے بغیر کوئی ایک اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات نہیں حاصل کرسکتا ۔ اور نہ ہی کوئی اس کے بغیر خوش بخت ہوسکتا ہے۔ اورنہ ہی کوئی اس کے بغیر ایماندار ہوسکتا ہے۔ پس ان پر دو باتوں میں سے ایک لازم آتی ہے:
۱۔ یا تو ان کا یہ قول سرے سے ہی باطل ہوگا۔
۲۔ یا پھر یہ کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہوچکے ہوں‘اور اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کے لیے عذاب