کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 100
واجب الاطاعت رسول ہیں ۔اور اگر یہ بات مان لی جائے کہ بالفرض آپ صرف امام ہیں ؛ تو آپ کی اطاعت اس وقت تک نہ کی جاسکتی جب تک آپ کی اطاعت کسی دوسرے رسول کی اطاعت کے زمرے میں نہ آتی۔اس لیے کہ اطاعت حقیقت میں اللہ اور اس کے رسول کی ہے ‘اور پھر ان لوگوں کی جن کی اطاعت کرنے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کی امامت کی وجہ سے آپ کی اطاعت کی گئی ؛ اور یہ اطاعت مسئلہ رسالت میں شامل تھی۔ تو پھر اس بات کی کوئی تاثیر باقی نہیں رہتی۔ اس لیے کہ صرف رسالت کا ہونا آپ کی اطاعت کے واجب ہونے کے لیے کافی ہے برعکس امام کے ۔ بیشک امام اس وقت امام بنتا ہے جب اس کے اعوان و انصارو مددگار ہوں جو اس کے حکم کو نافذ کریں ۔اگر ایسا نہ ہو تو وہ بھی کسی عام اہل علم اور اہل دین انسان کی طرح ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ طیبہ میں انصار و مدد گار میسر آگئے تو آپ رسالت کے ساتھ ساتھ عادل امام بھی بن گئے۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا : بلکہ آپ ایسے رسول ہوگئے جنہیں مددگار و انصار میسر آئے جو آپ کے احکام کو نافذ کرتے ‘ اور آپ کے مخالفین سے جہاد کرتے ۔ اور[یہ عہد کیا کہ] جب تک ایک بھی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والا انسان رؤئے زمین پر موجود ہے ‘ وہ ایسا کرتے رہیں گے ‘ آپ کے احکام کو نافذ کرتے رہیں گے‘ اور اس کی مخالفت کرنے والوں سے جہاد کرتے رہیں گے۔ اس میں کوئی حاکمیت یا امامت والی ایسی بات نہیں تھی جس کے ہونے سے رسالت کے باب میں کوئی خاص فائدہ ہو۔ اس لیے کہ یہ تمام امور خود رسالت میں شامل ہیں ۔لیکن ان انصار کی وجہ سے آپ کوکمال قدرت حاصل ہوگئی۔ اور آپ پر اوامر نازل ہوئے ‘ جہاد واجب ہوا جو کہ اس قدرت سے پہلے واجب نہیں تھا۔ پس یہ احکام علم اور عدم علم ؛ قدرت اور عاجزی میں اختلاف کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں ؛جیسا کہ محتاج اور مالدار ‘ مریض اور صحت مند ہونے کی بنا پر مختلف ہوتے ہیں ۔مؤمن ان تمام امور میں اللہ تعالیٰ کا اطاعت گزار ہوتا ہے؛ اور تمام امور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اطاعت گزار ہوتا ہے ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ‘ آپ جس بات کا حکم دیتے ہیں ‘اور جس بات سے منع کرتے ہیں ‘ان تمام باتوں میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے ہوتے ہیں ۔ [شبہ]:اگر امامیہ فرقہ کے لوگ کہیں کہ: رسالت کے برعکس امامت از روئے عقل واجب ہوتی ہے ۔اس لیے یہ اہم ترین مسائل میں سے ہے ۔ [جواب]:وجوب عقلی میں نزاع ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے ۔ اگر عقلی وجوب کو مان لیا جائے ؛ تو اس سے امامت کا وجوب باقی عقلی واجبات کے اجزاء میں سے ایک جزء ہے۔ جب کہ دوسرے عقلی واجبات امامت سے