کتاب: من اطیب المنح - صفحہ 73
اندھیرا ہے، گویا تدلیس کرنے والے نے سامع پر معاملہ اندھیرے میں رکھا، کیونکہ اس نے درست طریقے (بات) کو چھپا دیا۔
تدلیس کی دو اقسام ہیں:
(۱) تدلیس الاسناد:
راوی اپنے استاد کو گرا دے اور اپنے استاد کے شیخ سے روایت کرے یا دوسرے ہم عصر سے روایت لے جس سے ملاقات تو ہے (لیکن) سماع نہیں، نیز اس کی طرف سے اسے نہ تو اجازت ہے اور نہ ہی وجادت۔ روایت ایسے الفاظ سے کرے جو اتصال کا احتمال رکھتے ہیں، لفظ ’’عَنْ، قَالَ‘‘ کی طرح۔
اس کی انواع میں سے بری ترین قسم تدلیس التسویۃ ہے۔ وہ یہ ہے کہ دو ثقہ رواۃ جن کی آپس میں ملاقات ہے کے مابین ضعیف آدمی سے کوئی راوی روایت لے وہ (اس ضعیف) کو گرا دے اور اپنے ثقہ استاد کو دوسرے ثقہ راوی سے ملاکر روایت کرے۔
حافظ عراقی نے کہا ہے کہ جن راویوں کے متعلق یہ بات (تدلیس التسویۃ) معروف ہے ان میں سے بقیہ بن ولید اور ولید بن مسلم ہے جو آزادی کی نسبت سے قرشی ہے۔
(۲) تدلیس الشیوخ:
راوی اپنے استاد کا تذکرہ اس چیز کے ساتھ کرے جو لوگوں کے ہاں مشہور نہیں اس کا تعلق نام سے ہو یا کنیت سے یا لقب سے یا کوئی اور چیز (یعنی اپنے استاد کا غیر معروف نام، کنیت، لقب یا کوئی اور صفت کے ساتھ تذکرہ کرے تاکہ سننے والا دھوکہ کھا جائے)۔
جو راوی غیر ثقہ رواۃ سے تدلیس کرنے میں معروف ہو اس کی حدیث قبول نہیں کی جائے گی یہاں تک کہ سماع کی صراحت کر دے۔
٭٭٭