کتاب: من اطیب المنح - صفحہ 70
تینوں أئمہ ابو حنیفہ، مالک اور ایک روایت میں امام احمد سے بیان کیا گیا ہے کہ مرسل روایت علی الاطلاق مقبول ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ کسی راوی سے خاموشی اختیار کرنا اس کے عادل ہونے کی خبر ہے کیونکہ خاموش رہنے والا خود عادل ہے اور اسے علم بھی ہے کہ اس محذوف راوی کی روایت پر عام شرعی حکم مرتب ہوگا۔ (لہٰذا ایسا عادل جسے حذف کرے گا وہ بھی ثقہ ہوگا)۔
بعض محدثین نے یہاں تک کہہ دیا کہ مرسل روایت متصل سے زیادہ قوی ہے کیونکہ متصل بیان کرنے والے نے آپ کو اس روایت کی سند، اس کے رواۃ کے حالات میں جانچ پڑتال کرنا اور ان کے متعلق تحقیق کرنے کے سپرد کر دیا ہے جبکہ جس نے اپنے علم، دین، امانت، امامت اور ثقاہت کے باوجود روایت کو مرسل کیا تو یقینا اس نے تیرے لیے اس روایت کی صحت کا قطعی فیصلہ دیا اور تجھے اس کے رواۃ کے حالات کی جانچ پڑتال کی مشقت سے بے نیاز کر دیا۔
بعض اہل علم جن میں امام شافعی شامل ہیں کبار تابعین جیسے کہ سعید بن مسیب وغیرہ کی مرسل روایت کو قبول کرنے کی طرف گئے ہیں بشرطیکہ جب اس کے ساتھ اسے تقویت دینے والی چیز (قرینہ) مل جائے (یعنی) گویا کہ وہ دوسری سند سے متصل بیان کی گئی ہو یا قول صحابی کی موافقت میں ہو یا اکثر اہل علم نے اس روایت کے مطابق فتویٰ دیا ہو۔
اس کو مضبوطی سے لینا کہ مرسل کے حکم میں جو اختلاف گزرا ہے یہ مراسیل الصحابہ کے علاوہ میں ہے۔ صحیح اور مشہور موقف جس کے متعلق جمہور اہل علم نے قطعی فیصلہ یہ دیا ہے کہ صحابی کی مرسل حجت ہے کیونکہ صحابہ کا غیر صحابہ سے روایت کرنا نادر ہے۔ اور جب یہ غیر صحابی سے روایت لیتے ہیں تو وضاحت کر دیتے ہیں۔
چنانچہ صحابہ جب (بغیر واسطے کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے) مطلق بیان کریں تو ظاہر بات ہے کہ محذوف راوی صحابہ میں سے ہی ہوگا اور وہ تمام کے تمام عادل ہیں۔
٭٭٭