کتاب: من اطیب المنح - صفحہ 62
بمعنی زیارت کرنا۔ ہفت اقسام سے اجوف واوی ہے۔
مَسَّت: ....واحد مؤنث غائب فعل ماضی معروف باب مَسَّ یَمَسُّ بروزن علم بمعنی چھونا، پہنچنا، ہفت اقسام سے مضاعف ثلاثی ہے۔
٭٭....٭٭
النسخ:
لغوی لحاظ اسے اس کا معنی زائل کرنا اور نقل کرنا ہے۔ جب سورج سائے کو ختم کر دے تو ہم کہتے ہیں: ’’نَسَخَتِ الشَّمْسُ الظِلَّ‘‘ کہ سورج نے سائے کو زائل کر دیا۔ اور اسی طرح ’’نَسَخْت الْکِتَابَ‘‘ اس وقت کہو گے جب تم ایسی چیز نقل کرو جو کتاب کے الفاظ کے مشابہ ہو یعنی کتاب کی عبارت نقل کرنا۔
شریعت کے اعتبار سے نسخ کا مطلب ہوتا ہے کسی شرعی حکم کو اس سے بعد والی شرعی دلیل کے ذریعے ختم کرنا۔
نسخ کی پہچان قرائن یا چند امور سے ہوتی ہے ان میں سے ایک نص ہے واضح دلیل اور یہ سب سے زیادہ صریح بات ہے (جس سے نسخ کی معرفت ہوتی ہے) جیسا کہ حدیث ہے: ’’کُنْتُ نَھَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ القُبُوْرِ فَزُوْرُوْھَا‘‘ میں تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا کرتا تھا لہٰذا اب تم زیارت کرلیا کرو۔ (مسلم)
ان میں دوسرا وہ ہے کہ اس کے متاخر ہونے کی خبر صحابی دے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’کَانَ آخِرَ الْاَمْرَیْنِ مِنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تَرْکُ الْوُضُوْئِ مِمّا مَسَّتِ النَّارُ‘‘ دو معاملوں میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل آگ پر پکی چیز (کھا کر) وضو نہ کرنا تھا۔ (ترمذی)
شروع اسلام میں آگ پر پکی چیز کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا تھا جبکہ بعد میں اسے منسوخ کر دیا گیا البتہ اونٹ کا گوشت اب بھی یہی حکم رکھتا ہے۔
ان میں سے تیسرا وہ ہے جو تاریخ سے پہچانا جائے۔ البتہ وہ معاملہ جسے بعد میں اسلام