کتاب: من اطیب المنح - صفحہ 60
درمیان تطبیق ممکن ہو تو کسی اور طرف توجہ نہیں کی جائے گی۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جسے بخاری و مسلم نے نقل فرمایا: ’’فِرَّ مِنَ المَجْزُوْمِ فِرَارَکَ مِنَ الاَسَدِ‘‘ کوڑھی سے ایسے بھاگو جیسے شیر کو دیکھ کر تیرا بھاگنا ہے۔ اور وہ حدیث جسے امام مالک نے روایت کیا، فرمایا: ’’لاَ یُوْرَدُ مُمَرِّضٌ عَلٰی مُصَحٍّ‘‘ بیمار آدمی کو صحت مند پر پیش نہ کیا جائے۔ ان کا مقابلہ اس حدیث کے ساتھ ہے، فرمایا: ’’لَا عَدْوٰی وَلَا طِیَرَۃَ‘‘ (مسلم) نہ کوئی بیماری متعدی ہے (ایک سے دوسرے کو لگنا) اور نہ ہی بدشگونی ہے۔ ان روایات کا ظاہر متعارض ہے کیونکہ پہلی میں (بیمار) سے بھاگنے کا حکم دیا ہے جبکہ آخری میں بیماری متعدی ہونے کی نفی فرمائی۔ تطبیق کا طریقہ یہ ہے کہ بیماریاں طبعاً متعدی نہیں ہوتیں جیسا کہ اہل جاہلیت اور بعض طبیبوں کا نظریہ ہے (طبعاً بیماری متعدی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی بیماری کا یہ مزاج نہیں کہ وہ ایک سے دوسرے کو اور پھر آگے لگتی جائے) لیکن اللہ تعالیٰ اسے لگنے کا سبب بنا دیتا ہے اور بسا اوقات دوسرے اسباب کی طرح بیماری لگنے والے اسباب کے پائے جانے کے باوجود مسبب (بیماری لگنا) پیچھے رہ جاتا ہے۔ یعنی بیماری نہیں لگتی۔ اگر دونوں متعارض احادیث میں تطبیق ممکن نہ ہو تو تاریخ کی طرف رجوع کیا جائے گا چنانچہ اگر علم ہو جائے تو بعد والی پہلی کے لیے ناسخ ہوگی اور اس پر عمل کیا جائے گا۔ اور اگر تاریخ مجہول ہے لیکن سند یا متن کے ساتھ تعلق رکھنے والی ترجیح کی وجوہات میں سے کسی وجہ کے ذریعے دونوں میں ایک خبر کو راجح قرار دینا ممکن ہے تو ترجیح کی طرف رجوع ہوگا۔ اور اگر ترجیح قائم کرنا بھی ناممکن ہے تو ان دونوں پر عمل کرنے سے توقف کیا جائے گا یہاں تک کہ غور و فکر کرنے والے کے لیے ترجیح کی وجہ واضح ہو جائے۔ ٭٭٭