کتاب: من اطیب المنح - صفحہ 57
الشاہد:
وہ خبر ہے جو لفظاً و معناً یا صرف معناً کسی متفرد راوی کی روایت میں صحابی مختلف ہونے کی صورت میں مشارکت کر رہی ہو۔ بعض محدثین نے متابع کو اس روایت کے ساتھ خاص کیا ہے جو لفظاً (مشارکت) حاصل ہو برابر ہے کہ صحابی متحد ہو یا مختلف۔ جبکہ شاہد کو اس کے ساتھ خاص کیا ہے جو اسی طور پر معناً حاصل ہو۔ کبھی کبھار متابع اور شاہد میں سے ہر ایک دوسرے پر بولا جاتا ہے۔
الاعتبار:
غریب حدیث کی سندوں کو تلاش کرنا تاکہ معلوم ہوسکے آیا اس کے لیے متابع اور شاہد ہیں یا نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی مثال میں وہ روایت بیان کی ہے جسے امام شافعی نے اپنی کتاب الام میں مالک عن عبداللہ بن دینار عن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی سند سے نقل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلشَّھْرُ تِسْعُ وَّعِشْرُوْنَ فَلَا تَصُوْمُوْا حَتّٰی تَرَوُ الھِلَالَ وَلَا تُفْطِرُوْا حَتّٰی تَرَوْہُ فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ ثَلَاثِیْنَ))
’’مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے چنانچہ روزہ نہ رکھنا یہاں تک کہ چاند دیکھ لو اور نہ ہی افطار کرنا حتی کہ چاند دیکھ لو اگر تم پر چاند چھپا دیا جائے (بادل کی وجہ سے) تو تیس دن کی گنتی پوری کرو۔‘‘
بعض محدثین نے خیال کیا کہ ’’تیس دن کی گنتی پوری کرو‘‘ والے الفاظ میں امام شافعی متفرد ہیں کیونکہ ان کے علاوہ امام مالک کے دیگر شاگرد ’’فَاقْدِرُوْا لَہٗ‘‘ (اس کے لیے اندازہ لگاؤ) کے الفاظ سے اس حدیث کو بیان کرتے ہیں۔ لیکن امام شافعی کے لیے متابعت تامہ و قاصرہ دونوں ہی پائی جاتی ہیں۔
امام بخاری اپنی صحیح میں عبداللہ بن مسلمہ سے یہی لفظ نقل کرتے ہیں اور امام مالک سے اسی (امام شافعی کی) سند کے ساتھ انتہاء درجہ کی صحت میں یہ متابعت تامہ ہے۔