کتاب: من اطیب المنح - صفحہ 49
’’خرجنا معًا‘‘ (فی زمانٍ واحدٍ) ’’وکنّا معًا‘‘ (فی زمانٍ واحدٍ)۔ ٭٭....٭٭ امام ترمذی کا حسن اور غریب کو اکٹھا کرنے پر بعض محدثین نے تنقید کی ہے کیونکہ امام ترمذی کے نزدیک حسن وہ روایت ہے جو ایک سے زائد سندوں سے مروی ہو جبکہ غریب وہ ہے جس کو بیان کرنے والا ایک راوی رہ جائے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کا جواب دیا ہے جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے: بے شک امام ترمذی کی یہ اصطلاح ہر اس حدیث پر محمول کی جائے گی جس کے متعلق امام صاحب نے فقط حسن کا وصف بولا ہے۔ لیکن جس کو حسن اور غریب کے ساتھ اکٹھا ہی متصف کیا تو اس سے جمہور کی اصطلاح کے مطابق حسن مراد ہوگی۔ اور جمہور محدثین کی اصطلاح کے مطابق حسن اور غریب میں کوئی تضاد نہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: جن لوگوں نے امام ترمذی پر طعن و تشنیع کے تیر چلائے انہوں نے امام صاحب کی اکثر باتوں میں ان کا مفہوم نہیں سمجھا کیونکہ محدثین کہتے ہیں کہ ’’ہذا حدیث غریب‘‘ یہ غریب ہے یعنی اس سند کے لحاظ سے غریب ہے کبھی کبھار اس کی وضاحت بھی کر دیتے ہیں حالانکہ وہی حدیث ان کے نزدیک دوسری سند سے صحیح اور معروف ہوتی ہے۔ چنانچہ جب کسی اور سند سے مروی ہوتی ہے تو وہ اس اعتبار سے غریب ہوتی ہے اگرچہ متن صحیح اور معروف ہوتا ہے۔ اسی طرح امام ترمذی جب کہتے ہیں حسن غریب تو ان کی مراد بسا اوقات یہ ہے کہ اس سند کے اعتبار سے غریب ہے لیکن اس کے متن کے شواہد موجود ہیں جن کی بدولت یہ حسن کے زمرے میں آجاتا ہے۔ ٭٭٭