کتاب: من اطیب المنح - صفحہ 45
اور اپنا فائدہ بھی نہ ہو) دار قطنی اور حاکم نے اسے روایت کیا ہے۔ اس حدیث کی کئی سندیں ہیں ان میں سے کوئی بھی مقال (تنقید) سے خالی نہیں لیکن وہ ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں اسی لیے امام نووی اور ابن صلاح نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ ترمذی وغیرہ کا حدیث حسن صحیح کہنا: مذکورہ عبارت اشتباہ پیدا کرتی ہے کیونکہ حسن روایت صحیح کے درجہ سے نیچے ہوتی ہے۔ لہٰذا ایک حدیث میں کمی کا اثبات اور نفی کیسے جمع ہوسکتے ہیں۔ حافظ ابن حجر نے اس کا جواب دیا کہ جس حدیث پر حسن اور صحیح کے دونوں وصف بولے گئے ہوں گے وہ اس بات سے خالی نہیں کہ یا تو وہ غریب ہے جسے بیان کرنے میں راوی اکیلا رہ گیا ہے یا غریب نہ ہوگی۔ پہلی صورت میں دونوں اوصاف کے مابین جمع کرنے کا سبب اسے بیان کرنے والے منفرد راوی کے متعلق اس امام کا تردد ہوگا آیا وہ مکمل ضابط ہے؟ تو اس کی حدیث صحیح ہے یا کہ خفیف الضبط ہے؟ تو اس کی حدیث حسن ہے۔ پوشیدہ عبارت ہوگئی ’’حسن یا صحیح‘‘ ایسی روایت اس سے کم مرتبہ ہوگی جس کے متعلق پختہ طور پر صحیح کا حکم لگایا گیا ہے۔ دوسری صورت پر یعنی حدیث کے غریب نہ ہونے کی شکل میں یہ اجتماع دو سندوں کے اعتبار سے ہوگا، ان میں سے ایک صحیح اور دوسری حسن ہے۔ لہٰذا اس پر دونوں وصف اس کی دو سندوں کے اعتبار سے بولے گئے ہیں۔ یہ روایت اس حدیث سے قوی ہوگی جس کے متعلق صرف صحیح ہونے کا حکم لگایا گیا ہے۔ اس کی مثال یہ حدیث: ’’اگر یہ نہ ہوتا کہ میں اپنی امت پر مشقت ڈال دوں گا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا‘‘۔ بخاری اور مسلم نے اسے صحیح سند سے روایت کیا ہے، امام ترمذی نے بھی اسے نقل کیا ہے (لیکن) محمد بن عمرو جس کا ذکر پہلے کیا گیا ہے کی سند سے اور اس کی روایت کو صحیح اور حسن کہنے میں اختلاف کیا گیا ہے۔ لہٰذا امام ترمذی