کتاب: من اطیب المنح - صفحہ 28
خبر عزیز
جسے دو راوی بیان کریں خواہ ایک طبقہ میں ہی ہوں۔ اس کی مثال بخاری و مسلم کی روایت ہے جو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نیز امام بخاری نے اسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہِ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ‘‘ تم میں سے کوئی ایک مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں اس کو اس کے والدین اور اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
اسے عزیز کا نام یا تو اس کی قوت کی وجہ سے دیا گیا ہے کہ یہ دوسری سند سے بھی آتی ہے یا اس کی قلت اور ندرت کی وجہ سے یہ نام رکھا گیا ہے۔
باب عَزَّ یَعِزُّ عِزًّا وَعِزَّۃً فعل مضارع اور ان دونوں مصادر کا عین مکسور ہو گا۔ وعَزَارَۃً سے یہ ماخوذ ہے۔ وہ چیز عزیز ہوگئی اور اتنی کم ہوگئی کہ قریب ہے کہ پائی نہ جائے (عزیز روایت مشہور اور غریب کی نسبت کم پائی جاتی ہے)
وجہ تسمیہ بیان کرنے والوں میں سے کسی نے پہلا معنی ملحوظ رکھا ہے اور کسی نے دوسرا۔ اس بات کو مضبوطی سے تھامنا کہ جمہور کے ہاں حدیث کے صحیح ہونے میں اس کا عزیز ہونا شرط نہیں۔ یہ نظریہ اس شخص کے خلاف ہے جو اسے شرط خیال کرتا ہے۔ مثلاً ابو علی جبائی، ابن العربی اور حاکم۔ امام صنعانی نے نظم النخبۃ میں شعر کہا ہے:
ولیس شرطاً للصحیح فاعلم
وقیل شرطٌ وہو قول الحاکم
عزیز ہونا صحیح کے لیے شرط نہیں جان لے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ شرط ہے یہ قول حاکم کا ہے۔