کتاب: من اطیب المنح - صفحہ 176
ہوچکی ہے کہ علماء کی اصطلاح کے مطابق تمام صحابہ مجتہد نہ تھے۔ بعض شہری تھے اور بعض دیہاتی۔ نیز کئی صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محض ایک حدیث سنی تھی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فقط ایک مجلس طے کی، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یا دوسرے صحابی سے ایک حدیث ہی سنی وہ اس پر اپنے فہم کے مطابق عمل کرتا خواہ مجتہد تھا یا نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے زمانے میں اس قسم کی کوئی بات معروف نہیں تھی کہ کسی غیر مجتہد صحابی نے سنی ہوئی روایات کے متعلق کسی مجتہد صحابی کی طرف رجوع کیا ہو۔ ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریری حدیث کے مطابق غیر مجتہد صحابی کے لیے حدیث پر عمل کرنا جائز قرار دیا گیا اور اجماع صحابہ بھی اسی پر دلالت کرتا ہے۔ اگر عمل کرنے کی یہ رخصت نہ ہوتی تو خلفاء راشدین غیر مجتہد دیہاتی صحابہ کو حکم دیتے کہ اس وقت تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست ملی ہوئی حدیث یا بالواسطہ ملی حدیث پر عمل نہ کریں جب تک اسے مجتہدین پر پیش نہ کرلیں لیکن ایسی بات کا نہ کوئی وجود ہے اور نہ ہی نشان۔ فرمانِ باری تعالیٰ کا یہی مفہوم ہے: ﴿وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا﴾ (الحشر: ۷) ’’رسول جو کچھ تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے روک دے اس سے رک جاؤ۔‘‘ شیخ فلانی نے ’’ایقاظ الہمم‘‘ میں کہا ہمارے اساتذہ کے شیخ محقق ابوالحسن سندی نے فتح القدیر پر اپنے حاشیہ میں فرمایا: عام آدمی کے حق میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کسی معین مذہب کا پابند رہے کیونکہ وہ زیادہ درست و بہتر بات تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا بلکہ اس پر واجب ہے کہ جس عالم کو دین میں معتبر سمجھتا ہے اس کے قول پر عمل کرے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (الانبیاء: ۷) ’’اگر تمہیں علم نہیں تو اہل علم سے پوچھ لو۔‘‘ بحر الرائق میں لکھا ہے: مجتہد جو بھی ہو تقلید جائز ہے اور اگر عصر حاضر کی طرح مذاہب کو