کتاب: من اطیب المنح - صفحہ 174
کے مخالف ہو تو وہ یہ قاعدہ پیش کرتے ہیں راوی کی روایت حجت ہوتی ہے نہ کہ اس کی اپنی رائے۔ لیکن جب راوی کی رائے کو اپنے امام کے مؤقف کے موافق اور اس کی حدیث کو امام کے مؤقف کے مخالف پاتے ہیں تو یہ کہہ دیتے ہیں: راوی نے اپنی حدیث کے کسی صحیح ناسخ کے ثبوت کی بنا پر اپنی حدیث کی مخالفت کی ہوگی۔ اگر ایسے تسلیم نہ کریں تو راوی کی عدالت میں جرح لازم آتی ہے۔ کبھی پہلا قاعدہ اور کبھی دوسرا استعمال کرتے ہیں بلکہ ایک ہی باب میں اس تناقض کا مشاہدہ کیا گیا ہے جو قبیح ترین تناقض ہے۔
ہم اللہ کے لیے جو مذہب اختیار کرتے ہیں، جس کے علاوہ اور کوئی مذہب جائز نہیں وہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث صحیح ثابت ہو جائے اور کوئی دوسری حدیث اس کے معارض یا اس کے لیے ناسخ نہ ہو تو ہم پر اور پوری امت پر فرض ہے کہ اس حدیث کو اپنائیں اور اس کے مخالف ہر چیز کو ترک کر دیں۔
کسی آدمی کی مخالفت کی بناء پر ہم حدیث کو نہیں چھوڑیں گے وہ کوئی بھی ہو، اس حدیث کا راوی ہو یا کوئی دوسرا، کیونکہ ممکن ہے کہ راوی فتویٰ دیتے وقت حدیث بھول جائے یا اس مسئلہ پر حدیث کی دلالت کو نہ سمجھ سکے یا وہ اس کی کوئی مرجوح تاویل کرے یا اس کے گمان کے مطابق اس کی کوئی ایسی تعارض حدیث موجود ہو جو فی الحقیقت معارض نہیں یا وہ فتویٰ دینے میں کسی ایسے عالم کی تقلید کر رہا ہو جسے وہ اپنے سے زیادہ علم والا سمجھتا ہو۔ اور اس کا یہ خیال بھی ہوسکتا ہے کہ یہ حدیث اپنے سے قوی دوسری حدیث کے مخالف ہے۔ اگر ان تمام احتمالات کی نفی کر دی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ راوی معصوم نہیں اگرچہ ان احتمالات کی نفی کا علم ہونا بلکہ گمان ہونا بھی ممکن نہیں۔
سعدی کی ’’قاموس الشریعہ‘‘ میں ہے جب صحابی کوئی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوعاً بیان کر دے اور اس کا علم اس شخص کو ہو جائے جس پر شرعی احکام لاگو ہوسکتے ہوں تو اس پر واجب ہے کہ اس حدیث پر عمل کرے، ہاں اگر بعد میں اسے کوئی ایسی حدیث مل جاتی ہے جو پہلی کی ناسخ ہو تو دوسری حدیث پر عمل کرے اور پہلی حدیث سے رجوع کرلے۔