کتاب: من اطیب المنح - صفحہ 173
پردے مارو۔ نیز فرمایا: مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جس انسان کے سامنے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم واضح ہوگئی کسی کے قول کی وجہ سے اس سنت کو ترک کرنا اس کے لیے حلال نہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنے کسی شاگرد کو فرمایا: نہ میری تقلید کرنا اور نہ ہی مالک، اوزاعی اور نخعی وغیرہ کی بلکہ جہاں سے انہوں نے احکامات لیے تم بھی وہاں سے ہی لینا یعنی کتاب و سنت سے۔ شاہ ولی اللہ الدھلوی رحمہ اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں فرمایا: تحقیق و جستجو سے معلوم ہوا کہ چوتھی صدی ہجری تک کسی خاص امام کا مذہب اپنانے، اس کی فقہ حاصل کرنے یا اس کے قول کو نقل کرنے کی صورت میں لوگ خالص تقلید پر نہیں تھے۔ ان فضیلت والی صدیوں کے بعد ایسے لوگ ہوئے جو دائیں، بائیں بھٹکنے لگے اور چیونٹیوں کے رینگنے کی طرح تقلید، چپکے سے ان کے دلوں میں سرایت کر گئی اور انہیں شعور تک نہ ہوا۔ شاہ ولی اللہ نے شیخ عز الدین بن عبدالسلام سے نقل کرتے ہوئے لکھا: ان مقلد فقہاء پر بڑا تعجب ہے جو اپنے امام کے ضعیف ماخذ کا دفاع نہ کرسکنے کے باوجود اس کی اندھی تقلید کرنے پر ڈٹے رہتے ہیں۔ اور قرآن و سنت جس امام کی تائید کرتے ہیں اس سے بے رخی کرتے ہیں بلکہ اپنے امام کی طرفداری کرنے کے لیے قرآن و سنت کے ظاہری مفاہیم کو رد کرنے کے لیے مختلف قسم کے حیلے اور باطل تاویلیں تراشتے ہیں۔ عز الدین رحمہ اللہ نے مزید فرمایا: کسی مذہب کی تعیین کیے بغیر لوگ جس عالم سے چاہتے مسائل دریافت کرتے تھے اور کسی پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا تھا، یہاں تک کہ مخصوص مذاہب اور ان متعصب مقلدین نے جنم لیا جنہوں نے اپنے اپنے ائمہ کے غیر شرعی مؤقف کی بھی ایسے انداز میں تقلید شروع کر دی گویا وہ ان کے نبی ہیں۔ حقیقت میں یہ حق سے دوری اور راہ راست سے بھٹکنا ہے اور کوئی عقلمند ایسی تقلید پر راضی نہیں ہوتا۔ امام ابن قیم نے ’’اعلام الموقعین‘‘ میں کہا: ہم اکثر لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ جب کوئی حدیث ان کے امام کے مسلک کی موافقت کر رہی ہو اور اس حدیث کے راوی کا مؤقف اس