کتاب: من اطیب المنح - صفحہ 172
تسلیم کرلیں۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ﴾ (النساء: ۵۹)
’’پس اگر تم کسی چیز میں اختلاف کرنے لگو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہِ اَنْ تُصِیبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ (النور: ۶۳)
’’جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈر جانا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی آفت نہ آپڑے، یا انہیں کہیں درد ناک عذاب نہ لپیٹ لے۔‘‘
اس موضوع پر بے شمار آیات کریمات ہیں۔ ائمہ اربعہ اور تمام علماء ربانی کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اس سے بلند و بالا اور عظیم ہے کہ کسی انسان کے قول کو اس پر مقدم سمجھا جائے وہ کوئی بھی ہو۔ سنت پر عمل کرنا بھی اس کی تعظیم و تکریم ہے۔
ابن عابدین نے المنظومہ کی شرح جس کا نام عقود رسم المفتی ہے میں کہا ہے کہ: امام ابوحنیفہ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’اِذَا صَحَّ الْحَدِیْثُ فَہُوَ مَذْہَبِیْ‘‘ جب حدیث صحیح آجائے تو وہی میرا مذہب ہے۔
امام ابن عبدالبر نے بھی امام ابو حنیفہ اور دوسرے ائمہ سے ایسے اقوال نقل کیے ہیں۔ امام مالک سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ہر انسان کا کلام مقبول بھی ہوسکتا ہے اور مردود بھی ماسوائے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے (ان کی بات ہر صورت میں مقبول ہوگی)۔
امام شافعی سے مروی ہے کہ جب حدیث صحیح ہو تو وہی میرا مذہب ہے۔ نیز فرمایا: اگر تم دیکھو کہ میری بات حدیث کی مخالفت کر رہی ہے تو حدیث پر عمل کرو اور میری بات کو دیوار