کتاب: من اطیب المنح - صفحہ 170
۶۔ اور اپنے ذہن میں رسوخ پیدا کرنے کے لیے اہل علم سے بحث و مباحثہ کرے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حدیث کا مذاکرہ کیا کرو کیونکہ حدیث کا مذاکرہ اس کی زندگی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ایک گھڑی علم کا مذاکرہ کرنا ساری رات کو زندہ کرنے یعنی عبادت سے بہتر ہے۔ جناب زہری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ علم کی آفت نسیان اور مذاکرہ کی قلت ہے۔ ۷۔ حدیث کے لیے تلمیذ کا حفظ بالتدریج یعنی تھوڑا تھوڑا ہونا چاہیے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ: ’’خُذُوْا مِنَ الْاَعْمَالِ مَا تُطِیْقُوْنَ‘‘ وہ اعمال کرو جن کی تم طاقت رکھتے ہو۔ ۸۔ عبادات و آداب کے حوالے سے سنی ہوئی احادیث پر عمل کرے کیونکہ یہ حدیث کی زکوٰۃ اور اسے یاد کرنے کا سبب ہے۔ امام وکیع نے فرمایا: جب تم حدیث کو یاد کرنا چاہتے ہو تو اس پر عمل کرو۔ امام احمد بن حنبل نے فرمایا: میں نے نہیں کوئی حدیث لکھی مگر اس پر عمل کیا ہے، یہاں تک کہ میرے سامنے حدیث آئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگوائی (پچھنے لگوائے) اور ابوطیبہ (سینگی لگانے والے) کو ایک دینار دیا تو میں نے بھی پچھنے لگوائے اور لگانے والے کو ایک دینار دیا۔ ۹۔ حدیث کی معرفت اور سمجھ کے بغیر فقط سماع اور لکھنے پر ہی اکتفاء نہ کرے۔ ۱۰۔ بخاری و مسلم کو مقدم رکھے، پھر (بالترتیب) سنن ابی داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، صحیح ابن خزیمہ اور ابن حبان کو اور پھر سنن الکبریٰ کو مد نظر رکھے۔ بعد ازاں مسند احمد کی طرح مسانید جوامع اور حدیث کے موضوع پر لکھی دیگر تمام کتب کو جن کی ضرورت ہے کو سامنے رکھے۔ پھر علل کو جیسا کہ امام احمد، دارقطنی اور ابن ابی حاتم کی کتاب ہے، اور اسماء الرجال میں