کتاب: من اطیب المنح - صفحہ 14
قائم ہوگئیں تو (سب سے پہلے) قاضی ابو محمد حسن بن عبدالرحمن بن خلاد رامہر مزی المتوفی (۳۶۰ھ) نے فن مصطلح کو اپنی کتاب (المحدث الفاصل بین الراوی والواعی) میں الگ طور پر ابتدائی حالت میں لکھا ہے۔ پھر علماء نے اس فن میں وسعت پیدا کی چنانچہ ابو عبداللہ الحاکم نیشاپوری المتوفی (۴۰۵ھ) آئے اور انہوں نے اس علم میں کتاب ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘ لکھی لیکن نہ تو اسے اچھی طرح مرتب کرسکے اور نہ ہی احاطہ کرسکے۔ پھر ابو نعیم احمد بن عبداللہ اصبہانی المتوفی (۴۳۰ھ) آئے انہوں نے امام حاکم کی کتاب پر بطور استخراج کام کیا اور کئی چیزیں بعد والوں کے لیے چھوڑ دیں۔ پھر خطیب ابوبکر احمد بن علی بغدادی رحمہ اللہ المتوفی (۴۶۳ھ) آئے انہوں نے روایت کے قوانین میں ’’الکفایہ‘‘ اور اس کے آداب میں ’’الجامع لاداب الشیخ والسامع‘‘ تصنیف کی۔ نیز انہوں نے حدیث کے اکثر فنون میں الگ الگ کتابیں لکھیں لہٰذا ان کے بعد آنے والا ان کی کتب کا محتاج ہوگیا۔ جیسا کہ حافظ ابوبکر بن نقطہ رحمہ اللہ نے فرمایا۔ پھر قاضی عیاض رحمہ اللہ المتوفی (۵۴۴ھ) آئے۔ انہوں نے اس فن میں ’’الالماع فی ضبط الروایۃ وتقیید السماع‘‘ نامی کتاب جمع کی۔ پھر ابو حفص عمر المیانجی المتوفی (۵۸۰ھ) نے ایک رسالہ مرتب کیا جس کا نام ’’ما لا یسع المحدث جھلہ‘‘ رکھا۔ ان کے اور دیگر ائمہ کے بعد حافظ ابو عمرو عثمان بن عبدالرحمن المعروف ابن الصلاح دمشقی المتوفی (۶۴۳ھ) آئے چنانچہ جب یہ مدرسہ اشرفیہ المعروف دارالحدیث میں تدریس حدیث پر فائز ہوئے تو انہوں نے اپنی کتاب ’’علوم الحدیث‘‘ لکھی جو کہ مقدمہ ابن الصلاح کے نام سے مشہور ہے۔ انہوں نے علم مصطلح کے فنون کی تہذیب کی اور آہستہ آہستہ املاء کروائی۔ خطیب بغدادی کی متفرق کتب کو اہمیت و توجہ دی اور بکھرے ہوئے مقاصد کو جمع کیا۔ نیز دیگر کتابوں میں سے بھی بعض عمدہ فوائد اس میں ملا دیے۔ لہٰذا ان کی کتاب میں وہ کچھ اکٹھا ہوگیا جو دیگر کتابوں میں متفرق تھا۔ اسی لیے علماء نے اس کتاب پر توجہ دی اور انہی کے طریقے پر چلے