کتاب: مفتاح النجاۃ - صفحہ 69
بَیْنَمَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ یُصَلِّي فَوَضَعَ یَدَہٗ عَلَی الْـأَرْضِ فَلَدَغَتْہُ عَقْرَبٌ، فَتَنَاوَلَہَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَعْلِہٖ فَقَتَلَہَا، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ : أَخْزَی اللّٰہُ الْعَقْرَبَ، مَا تَدَعُ مُصَلِّیًا وَلَا غَیْرَہٗ وَلَا مُؤْمِنًا وَلَا غَیْرَہٗ إِلَّا لَدَغَتْہُ، ثُمَّ دَعَا بِمِلْحٍ وَمَائٍ فَجَعَلَہٗ فِي إِنَائٍ وَجَعَلَ یَصُبُّہٗ عَلٰی إِصْبَعِہٖ حَیْثُ لَدَغَتْہُ وَیَمْسَحُہَا وَیُعَوِّذُہَا بِالْمُعَوِّذَتَیْنِ ۔
’’ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر ہاتھ رکھا، تو بچھو نے کاٹ لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جوتے سے مار دیا، نماز سے فارغ ہوئے، تو فرمایا : اللہ تعالیٰ بچھو کو برباد کرے، نماز کے اندر اور باہر، نبی اور غیر نبی ہر کسی کو کاٹ لیتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی اور نمک منگوایا، اسے ایک برتن میں ڈالا اور انگلی کے جس حصہ پر بچھو نے کاٹا تھا، اس پر نمک والا پانی بہانے لگے، اسے ملنے لگے اور معوذتین کا دم کرنے لگے۔‘‘
(مصنف ابن أبي شیبۃ : 29801، المعجم الصّغیر للطّبراني : 830، وسندہٗ صحیحٌ)
٭ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (۷۷۴ھ) سورت ناس کا مفہوم بیان کرتے ہیں :
’’اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی تین صفات، ربوبیت، شہنشاہی اور الوہیت کا تذکرہ ہے۔ وہ ہر شے کا رب، مالک اور الٰہ ہے۔ تمام اشیا اس کی مخلوق ہیں ، اسی کی ملکیت ہیں اور اسی کی بندگی میں مشغول۔ لہٰذا وہ حکم دیتا ہے کہ