کتاب: مفتاح النجاۃ - صفحہ 13
4. سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
بَیْنَا جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ قَاعِدٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَمِعَ صَوْتًا نَقِیضًا مِّنْ فَوْقِہٖ فَقَالَ : ہٰذَا بَابٌ مِّنَ السَّمَائِ فُتِحَ الْیَوْمَ، لَمْ یُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْیَوْمَ، فَنَزَلَ مِنْہُ مَلَکٌ فَقَالَ : ہٰذَا مَلَکٌ نَزَلَ إِلَی الْـأَرْضِ لَمْ یَنْزِلْ قَطُّ إِلَّا الْیَوْمَ فَسَلَّمَ وَقَالَ : أَبْشِرْ بِنُوْرَیْنِ أُوتِیْتَہُمَا لَمْ یُوْتَہُمَا نَبِيٌّ قَبْلَکَ : فَاتِحَۃُ الْکِتَابِ، وَخَوَاتِیْمُ سُورَۃِ الْبَقَرَۃِ لَمْ تُقْرَأْ بِحَرْفٍ مِّنْہَا إِلَّا أُعْطِیْتَہٗ ۔
’’ جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ آسمانوں سے چرچراہٹ سنائی دی، جبریل علیہ السلام کہنے لگے : یہ آسمان کا وہ دروازہ ہے، جو صرف آج کھولا گیا ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں کھلا۔ اس دروازے سے ایک فرشتہ اترا ہے، جو پہلے کبھی نہیں اترا۔ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور عرض کیا : مبارک ہو، آپ کو دو نور عطا کئے گئے ہیں ، جو آپ سے پہلے کسی کو عطا نہیں ہوئے، وہ نور سورت فاتحہ اور سورت بقرہ کی دو آخری آیتیں ہیں ۔ آپ ان میں سے ایک حرف بھی پڑھیں گے، تو وہ نور پا لیں گے۔‘‘
(صحیح مسلم : 806)
5. سورت فاتحہ کو الصّلوۃ (نماز) بھی کہا گیا ہے۔
(صحیح مسلم : 395)