کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 99
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((یَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ لَّا تَمْنَعُوْا أَحَدًا یَّطُوْفُ بِھٰذَا الْبَیْتِ وَیُصَلِّي أَيَّ سَاعَۃٍ شَآئَ مِنْ لَّیْلٍ أَوْ نَھَارٍ))
’’اے بنو عبد مناف! اس گھر (بیت اللہ) کا طواف کرنے سے کسی کو مت روکو اور وہ رات یا دن کی جس گھڑی میں چاہے، نماز پڑھے۔‘‘[1]
٭ البتہ اگر سورج طلوع یا غروب ہونا شروع ہوگیا تو عین طلوعِ شمس یا غروبِ شمس کے وقت نماز پڑھنی ممنوع ہے۔ ایسی صورت میں انتظار کیا جائے اور طلوع و غروب کے بعد نماز پڑھی جائے۔ طلوع شمس کے وقت کے 10 منٹ بعد جبکہ سورج نیزے کے برابر بلند ہوجائے، نماز کا پڑھنا جائز ہوگا، اتنے وقفے میں سورج کافی بلند ہوجاتا ہے۔
قضا شدہ نماز یا نمازوں کی ادائیگی میں ترتیب کا خیال رکھا جائے
نماز میں بغیر عذر شرعی کے تاخیر کرنا یا دو دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھنا جائز نہیں ہے، یہ کبیرہ گناہ ہے۔ ہاں اگر کسی موقعے پر واقعی عذر کی وجہ سے ایک، دو یا تین نمازیں رہ جائیں تو ان کی ادائیگی میں ترتیب کا خیال رکھنا ضروری ہے، مثلاً: کسی کی ظہر یا مغرب کی نماز رہ گئی تو وہ پہلے ظہر کی نماز پڑھے، پھر عصر کی۔ عشا کی نماز سے پہلے مغرب کی نماز ادا کرے، پھر عشا کی۔
ہاں اگر وہ مسجد میں ایسے وقت میں گیا ہے کہ وہاں ، مثلاً: عصر کی جماعت یا عشا کی جماعت ہورہی تھی جبکہ اس نے ظہر یا مغرب کی نماز بھی نہیں پڑھی تھی، ایسی صورت میں وہ جماعت کے ساتھ پہلے وہ نماز پڑھ لے جو وہاں ہورہی ہو اور اس کے بعد وہ ظہر یا مغرب کی نماز ادا کرے۔
[1] سنن أبي داود، الحج، حدیث: 1894، وجامع الترمذي : الحج، حدیث: 868۔