کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 98
5. یہاں ایک اور مسئلہ سمجھ لیا جائے کہ اگر کبھی کسی کی فجر کی نماز لیٹ ہوگئی اور وہ اس نے اس وقت شروع کی کہ ایک رکعت پڑھنے کے بعد سورج کے طلوع ہونے کا وقت ہوگیا تو اسکی نماز صحیح ہے، وہ دوسری رکعت بھی پوری کرلے۔ اسی طرح عصر کی نماز کبھی اگر لیٹ ہوگئی ہے اور اس نے اتنی تاخیر سے نماز پڑھنی شروع کی ہے کہ ایک رکعت کے بعد سورج کے غروب ہونے کا وقت ہوگیا تو وہ بھی نماز پوری کرلے، اس کی نماز بھیصحیح ہوگی۔ اس کی دلیل درج ذیل حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ اَدْرَکَ مِنَ الصُّبْحِ رَکْعَۃً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ اَدْرَکَ الصُّبْحَ، وَ مَنْ اَدْرَکَ رَکْعَۃً مِنَ الْعَصْرِ قَبْلَ اَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ اَدْرَکَ الْعَصْرَ)) ’’جس نے فجر کی، سورج کے طلوع ہونے سے پہلے، ایک رکعت پالی، اس نے صبح کی نماز پالی اور جس نے عصر کی، سورج کے غروب ہونے سے پہلے، ایک رکعت پالی تو اس نے عصر کی نماز پالی۔‘‘ (یعنی ان کی یہ نمازیں قضا نہیں ہوئیں ) [1] لیکن یہ رعایت صر ف ایسے لوگوں کے لیے ہے جن سے اتفاقیہ طور پر نماز لیٹ ہوگئی ورنہ کسی مخلص مومن سے تو بلاوجہ محض تساہل سے اتنی تاخیر کی توقع ہی نہیں ۔ 6. مکۃ المکرمہ میں ہر وقت نوافل ادا کیے جاسکتے ہیں لیکن محدثین کے نزدیک مکۃ المکرمہ میں ہر وقت نماز پڑھنی جائز ہے، یعنی وہاں تینوں مکروہ اوقات (بعد نماز فجر و عصر اور زوال کے وقت) میں بھی نوافل بالخصوص بعد الطواف دوگانہ ادا کرنا جائز ہے جس کی دلیل حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، جس میں
[1] صحیح البخاري، مواقیت الصلاۃ، باب من ادرک من الفجر رکعۃ، حدیث: 579۔