کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 97
الشمس و اباحتہا بعد العصر حتی تصفرَّ و بہ قال ابن حزم۔ ’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی بابت مروی ہے کہ وہ صبح کی نماز کے بعد سورج کے طلوع ہونے تک نماز (نوافل) پڑھنے کو حرام اور عصر کے بعد سورج کے زرد ہونے تک (نفل) نماز پڑھنے کو جائز سمجھتے تھے۔ حافظ ابن حزم بھی اسی بات کے قائل ہیں ۔‘‘ [1] صاحبِ عون المعبود علامہ شمس الحق ڈیانوی رحمہ اللہ اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی مذکورہ احادیث و دلائل کی بنیاد پر اسی موقف کا اثبات کیا ہے جو اوپر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہوا ہے۔[2] ملحوظہ: مسئلہ زیر بحث میں ہم نے قدرے تفصیل سے اس لیے گفتگو کی ہے کہ نماز عصر کے بعد نوافل کی ادائیگی کو بالعموم ممنوع اور ممانعت کی احادیث کو مطلق سمجھا جاتا ہے جبکہ واقعہ ایسا نہیں ہے۔ دوسری احادیث سے اس اطلاق میں تخصیص ہوجاتی ہے جس کی تائید عمل صحابہ سے بھی ہوتی ہے، اس لیے عصر کے بعد نوافل کی ممانعت والی احادیث، اصفرارِ شمس کے وقت پر محمول کی جائیں گی، یعنی عصر کے بعد نوافل اس وقت ممنوع ہوں گے جب سورج زرد ہوجائے گا اور غروب تک وقتِ ممنوع ہوگا، اس سے پہلے نوافل جائز ہوں گے۔ واللہ اعلم۔ 4. چوتھا ممنوع وقت، عین طلوع و غروبِ شمس کا وقت ہے۔ اس وقت میں نہ نفلی نماز جائز ہے اور نہ فرضی نماز۔ سورج کے غروب ہوتے ہی بلاتاخیر مغرب کی اذان دے دی جائے اور دو رکعت نفل پڑھ کر مغرب کی نماز پڑھ لی جائے، البتہ سورج کے طلوع ہوتے ہی نماز نہ پڑھیں جب تک وہ ایک یا دو نیزے کے برابر بلند نہ ہوجائے۔
[1] فتح الباري، 84/2۔ [2] ملا حظہ ہو: عون المعبود: 493,492/1، طبع قدیم۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، للالبانی: 244-241/1، حدیث: 200۔