کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 96
بھیجا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس شخص کو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف بھیج دیا، انہوں نے اس کا جواب اثبات میں دیا تو انہوں نے آکر ان صحابہ کو بتلایا جو اس سے لا علم تھے۔
علاوہ ازیں مُصنَّف عبد الرزاق میں آتا ہے کہ حضرت زید بن خالد کو حضرت عمر نے اس عمل سے منع کیا اور خلافت کے اختیارات استعمال کیے تو زید بن خالد نے حضرت عمر سے ان نوافل سے سختی کے ساتھ روکنے کی وجہ پوچھی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
یا زید! لو لا انی اخشیٰ ان یتخذہما الناس سُلّٰماً الی الصلاۃ حتی اللیل لم اضرب فیہما
’’اے زید! مجھے یہ اندیشہ ہے کہ عصر کے بعد نماز (دو رکعت نفل)کے جواز کو اس حد تک پہنچادیں گے کہ رات (سورج کے غروب ہونے) تک لوگ نوافل پڑھتے رہیں گے (حالانکہ غروب کے وقت پڑھنا قطعاً جائز نہیں ہے) اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا تو میں ان دو رکعت پر ان کی سرزنش نہ کرتا۔‘‘
حافظ ابن حجر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کرکے لکھتے ہیں :
فلعل عمر کان یریٰ أنَّ النہی عن الصلاۃ بعد العصر انما ہو خشیۃ ایقاع الصلاۃ عند غروب الشمس۔
’’شاید حضرت عمر نے یہ سمجھا کہ نماز عصر کے بعد نماز کی ممانعت، صرف اس اندیشے کے پیش نظر کی گئی ہے کہ لوگ غروبِ شمس کے وقت بھی نماز نہ پڑھتے رہیں ۔‘‘[1]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں :
وروی عن ابن عمر تحریم الصلاۃ بعد الصبح حتی تطلع
[1] فتح الباري: 86/2۔