کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 95
سببی نہیں ۔ اور نَحْوِہَا کے اضافے سے یہ مقصود ہے کہ اہم نوافل بھی ادا کیے جاسکتے ہیں ۔ اس باب کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی وہ چار روایات درج کی ہیں جن میں انہوں نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تا دم ِ واپسیں عصر کے بعد ہمیشہ دو رکعت ادا فرماتے رہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ان احادیث کی شرح میں فرماتے ہیں : ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز عصر کے بعد ہمیشہ (تا وفات) دو رکعت کی ادائیگی سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ سمجھا کہ عصرکے بعد غروبِ شمس تک (نفلی) نماز پڑھنے کی ممانعت صرف اس شخص کے لیے مخصوص ہے جو غروبِ شمس کے وقت نماز پڑھنے کا ارادہ کرے، یہ حکم ہر شخص کے لیے (مطلق) نہیں ہے، اس لیے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت مذکورہ وضاحت فرمائی اور وہ خود بھی نماز عصر کے بعد نفل پڑھا کرتی تھیں ۔ اور عبد العزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ میں نے (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے خواہر زادے) عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ عصر کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ حضرت عائشہ نے ان کو بتلایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دو رکعت ان کے پاس آکر ضرور پڑھتے تھے۔ گویا حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بھی اس عمل رسول سے وہی کچھ سمجھا جو ان کی خالہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سمجھا۔ واللہ اعلم۔‘‘[1] حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہا کی بابت آتا ہے کہ وہ نمازِ عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے سے منع فرماتے اور ایسا کرنے والوں کی گوش مالی کرتے تھے، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی اس معاملے میں ان کے ہم نوا اور معاون تھے لیکن جب ان کو بتلایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عمل ثابت ہے تو انہوں نے اس امر کی تحقیق کے لیے ایک شخص کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف
[1] فتح الباري، حدیث: 590، ج 6، ص: 87، طبع دار السلام۔