کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 93
’’جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے نہیں جاملے، یہ دو رکعت عصر کے بعد ادا فرماتے رہے۔‘‘[1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بہت سے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی نمازِ عصر کے بعد یہ دو رکعت بطور نفل پڑھتے رہے۔ حافظ ابن حزم نے 22 صحابہ کے اسمائے گرامی ذکر کیے ہیں جن سے یہ عمل ثابت ہے۔[2]
انہی احادیث و آثار کے پیش نظر فقہائے حدیث و علمائے اہلحدیث نے وضاحت کی ہے کہ نماز عصر کے بعد قضا شدہ نماز، نمازِ جنازہ، تحیۃ الوضو اورتحیۃ المسجد کا دوگانہ، نماز کسوف وغیرہ کا پڑھنا جائز ہے۔ اس کو وہ سببی نماز سے تعبیر کرتے ہیں ، یعنی خاص سبب اور وجہ سے عصر کی نماز کے بعد نماز پڑھنا صحیح ہے۔
علاوہ ازیں ایک اور حدیث ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے اور سنداً صحیح ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کے راوی ہیں :
((أَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم نَہٰی عَنِ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الْعَصْرِ اِلَّا وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ))
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر کے بعد (نفلی) نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے، ہاں جب سورج بلند ہو تو پڑھی جاسکتی ہے۔‘‘[3]
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث سنن النسائی میں اور زیادہ واضح الفاظ میں آئی ہے:
((نَہٰی رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ صَلَاۃٍ بَعْدَ الْعَصْرِ اِلَّا أَنْ تَکُونَ الشَّمْسُ
[1] صحیح البخاري، مواقیت الصلاۃ، حدیث: 593-590۔
[2] المحلّٰی،لابن حزم، مسئلہ 285۔
[3] سنن أبي داود، التطوع، حدیث: 1274۔