کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 92
عصر کے بعد نوافل مطلقاً ممنوع نہیں
عام طور پر مطلقاً یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ عصر کے بعد نوافل ممنوع ہیں ، یہ بات صحیح نہیں ہے۔ پھر یہ بات مشہور کیوں ہوگئی ہے؟ اس کی وجہ بعض احادیث کے وہ الفاظ ہیں جن میں عموم پایا جاتا ہے، مثلاً:
((اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم نٰہٰی عَنِ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتّٰی تَشْرُقَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتّٰی تَغْرُبَ))
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز کے بعد سورج کے بلند ہونے تک اور نماز عصر کے بعد سورج کے غروب ہونے تک نماز (نفل) پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘[1]
اس حدیث اور اس کے ہم معنی دیگر احادیث میں مطلقاً دونوں اوقات میں نفلی نماز سے منع فرمایا گیا ہے، فجر کے بعد بھی اور عصر کے بعد بھی۔
لیکن دوسری احادیث سے اس اطلاق (حکم عام) میں تخصیص ثابت ہوتی ہے، مثلاً: فجر کی نماز کے بعد اس شخص کے لیے فجر کی دو سنتیں پڑھنا جائز ہے جو فرض نماز سے پہلے نہیں پڑھ سکا۔ اس طرح یہ ایک تخصیص ہوگئی جودوسری حدیث سے ثابت ہے جو سنن دار قطنی کے حوالے سے بیان ہوچکی ہے۔
اسی طرح بعد العصر (نماز عصر کے بعد) کا مسئلہ ہے۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے، اس کی وجہ (پہلے پہل) آپ نے یہ بیان فرمائی کہ نماز ظہر کے بعد وفدِ عبد القیس آگیا تھا، اس کے ساتھ گفتگو اور مسائل کی توضیح و تعلیم کی وجہ سے ظہر کی یہ دو سُنتیں رہ گئی تھیں جو میں نے اب پڑھی ہیں ، یعنی پہلے یہ قضائً پڑھیں ، پھر ان کو آپ نے معمول بنالیا کیونکہ آپ ہر عمل پر مداومت کرنا پسند فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
[1] صحیح البخاري، مواقیت الصلاۃ، حدیث: 581، وصحیح مسلم، حدیث: 825۔