کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 87
صورت میں تو قابلِ معافی نہیں ہو سکتا، اِس لیے بیت اللہ اور مسجد نبوی میں بھی امکانی حد تک سُترے کا اہتمام کرنے کی سعی ضرور کرنی چاہیے، پھر اگر لوگوں کی لاپروائی کی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو عنداللہ معافی کی اُمید ہے۔
اوقاتِ نماز
وقت ظہر
٭ زوال ، یعنی سورج کے ڈھلتے ہی ظہر کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور سایۂ اصلی کے علاوہ ایک مثل سایہ ہونے تک رہتا ہے، البتہ سخت گرمی میں ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کرکے پڑھنے کا حکم ہے۔ اس کا مطلب سردی کے مقابلے میں قدرے تاخیر سے پڑھنا ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ اتنی تاخیر کردو کہ عصر کا وقت شروع ہوجائے۔
٭ عصر کا وقت سایۂ اصلی کے علاوہ ایک مثل ہونے سے شروع ہوکر سورج کے غروب ہونے تک رہتا ہے۔ (زرد ہونے کے بعد عصر کی نماز پڑھنا، منافق کی صفت بتلایا گیا ہے۔)
٭ سورج کے غروب ہوتے ہی مغرب کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور جب تک شفق غائب نہ ہو جائے، باقی رہتا ہے۔
٭ شفق کے غائب ہوتے ہی عشاء کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور نصف رات تک رہتا ہے۔
٭ فجر کا وقت صبح صادق سے سورج کے طلوع ہونے تک رہتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، عشاء کی نماز کے سوا، ہر نماز اوّل وقت میں پڑھتے تھے او راوّل وقت ہی کو آپ نے افضل قرار دیا ہے۔ اسی لیے آپ فجر کی نماز اتنے اندھیرے میں پڑھ لیتے تھے کہ صحابہ ایک دوسرے کو پہچانتے نہیں تھے۔ صرف عشاء کی نماز آپ تاخیر سے پڑھتے تھے اور آپ نے اپنی اُمت کو بھی تاخیر سے پڑھنے کی ترغیب دی ہے۔[1]
[1] صحیح البخاري، الأذان، حدیث:867، وصحیح مسلم، المساجد، حدیث:612