کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 86
کوئی وضاحت نہیں کی ہے، البتہ حافظ ابن حزم نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے کہ عورت کے گزرنے سے عورت کی نماز نہیں ٹوٹے گی۔[1] آگے آنے والے ایک اثر سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
نابالغ بچی اگر گزر جائے تو…
حدیث کے الفاظ ہیں ’المرأۃ‘ عورت کے گزرنے سے نماز ٹوٹ جائے گی اور نابالغ بچی کو ’المرأۃ‘ (عورت) نہیں کہا جاسکتا بلکہ اس کو ’’الجاریۃ‘‘ کہا جاتا ہے، اس لیے اس کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹے گی۔ حضرت قتادہ (مشہور تابعی) رحمہ اللہ سے منقول ہے:
لَا تَقْطَعُ الْمَرْأۃُ صَلَاۃَ المَرْأَۃِ۔ ’’عورت، عورت کی نماز کو قطع نہیں کرتی۔‘‘ ان سے پوچھا گیا: ہَلْ یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ الْجَارِیَۃُ التِّی لَمْ تَحِضْ۔ ’’کیا نابالغ بچی نماز کو توڑ دے گی۔‘‘ انہوں نے جواب دیا: لَا، نہیں ۔[2]
بیت اللہ میں نمازی کے آگے سے گزرنے کا حکم : ایک حدیث میں بیت اللہ میں نماز پڑھنے والے کے آگے سے گزرنے کو جائز بتلایا گیا ہے لیکن یہ روایت سنداً ضعیف ہے، اِس لیے وہاں بھی نمازی کے آگے سے گزرنا ممنوع ہے کیونکہ اِستثنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔ آج کل کثرت ہجوم اور ضعیف حدیث کی شہرت کی بنا پر لوگ خانہ کعبہ میں سُترے کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے۔ ایسا سمجھنا یا کرنا درست نہیں ۔ عملی طور پر اس پر وہاں عمل کرنا مشکل یا ناممکن ہو تو اور بات ہے لیکن اپنی طرف سے اس کے لیے جہاں ممکن ہو وہاں بھی اس کی کوشش نہ کرنا اور بات ہے۔ پہلی صورت میں یہ گناہ شاید قابل معافی ہو لیکن دوسری
[1] المحلی: 15/4۔
[2] المصنف، لعبد الرزاق: 28/2، اثر نمبر 2356۔