کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 77
میں پاؤں دھونے کی ضرورت نہیں ہے، مقیم کو ایک دن اور رات۔ اور مسافر کو تین دن اور تین راتیں ۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل : امام خطابی فرماتے ہیں کہ 13 صحابہ سے جرابوں پر مسح کرنا ثابت ہے اور کسی صحابی سے ان کی مخالفت ثابت نہیں ۔ امام احمد بھی اس کے جواز کے قائل ہیں اور ان کی بنیاد یہی صحابہ کا عمل اور صریح قیاس ہے کیونکہ موزوں اور جرابوں کے درمیان کوئی ایسا مؤثر فرق نہیں ہے کہ جس کی بنا پر ان کے درمیان حکم میں کوئی فرق کرنا صحیح ہو۔[1]
مذکورہ احادیث، آثارِ صحابہ، اہلِ لغت کی صراحت اور قیاسِ صریح سے واضح ہے کہ جرابوں اور موزوں پر مسح کرنا جائز ہے، چاہے وہ چمڑے کے ہوں یا اُون کے، سوتی ہوں یا نائیلون کے، موٹے ہوں یا پتلے۔ ہر قسم کی جرابوں پر مسح کیا جا سکتا ہے، ان کے درمیان فرق کرنا صحیح نہیں ہے، بشرطیکہ جرابیں پہنتے وقت انسان باوضو ہو۔
مسح کرنے کی مدت : وضو کی حالت میں پہنی ہوئی جرابوں پر مقیم آدمی ایک رات اور ایک دن اور مسافر تین دن اور تین راتیں مسح کر سکتا ہے، البتہ احتلام اور جنابت کی صورت میں یہ رخصت ختم ہو جائے گی کیونکہ ان صورتوں میں غسل واجب ہو جاتا ہے، البتہ قضائے حاجت سے یہ رخصت ختم نہیں ہو گی بلکہ برقرا رہے گی اور مذکورہ مدت کے اندر مقیم اور مسافر پیر دھونے کی بجائے جرابوں پر مسح کر سکتے ہیں ۔[2]
مسح کے وقت کی ابتدا: موزوں پر مسح کی مدت کا آعاز وضو کرنے کے بعد سے نہیں ہوگا بلکہ اس وقت سے ہوگا جب وہ بے وضو ہونے کے بعد پہلی مرتبہ مسح کرے گا، مثلاً: نماز فجر کے وقت وضو کرکے جرابیں پہنیں ، پھر گھنٹے، دو گھنٹے کے بعد بے وضو ہوگیالیکن اس نے ظہر کے لیے وضو کیا اور جرابوں پر مسح کرلیا تو اس مسح سے مسح کی مدت کا آغاز ہوگا اور اگلے دن کی ظہر تک مقیم کے لیے مسح کرنا جائز ہوگا۔ اس طرح گویا وہ سات نمازوں کے لیے مسح کرسکے گا۔
[1] مختصر سنن أبي داود، للمنذری: 122/1۔
[2] صحیح مسلم، الطھارۃ، حدیث:276، وجامع الترمذي، الطھارۃ، حدیث:96۔