کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 76
علاوہ ازیں حنفی فقہ کی معتبر کتابوں (ہدایہ وغیرہ) میں یہ صراحت بھی ہے کہ فتوی بھی امام صاحب کے آخری عمل پر ہے۔اس کے باوجود فقہائے احناف اور موجودہ علمائے احناف کا جمود ناقابل فہم ہے جو جرابوں پر مسح کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور امت مسلمہ کو ایسی سہولت سے محروم کر رکھا ہے جو اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے اور صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ علمائے احناف کا ناقابل فہم عذر اگر وہ یہ کہیں کہ ہم امام صاحب کے رجوع کو اس لیے اہمیت نہیں دیتے کہ جرابوں پر مسح کرنے کی احادیث صحیح نہیں ہیں ، صرف خُفَّیْن پر مسح کرنے کی روایات صحیح ہیں ۔ تو ان کا یہ دعویٰ بھی غیر صحیح اور ان کے عمومی طرز عمل کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ ان کا عمومی طرز عمل تو یہ ہے کہ فقہ حنفی کے مسائل کو اہمیت دیتے ہوئے انہوں نے بے شمار صحیح احادیث کو مختلف حیلوں یا خانہ زاد اصولوں کی بنیاد پر ناقابل عمل اور مردود ٹھہرا رکھا ہے۔ بنابریں ان کا حدیث کو اہمیت دینے کے دعوے کو کیوں کر صحیح سمجھا جاسکتا ہے۔ اس مسئلے کی حد تک یہ صرف ان کا فقہی جمود اور اکابر پرستی کی ریت ہے جو ان کے ہاں بڑی مستحکم ہے۔ دوسرے، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو، جو جرابوں پر مسح کرنے کی دلیل ہے اور سنداً بالکل صحیح ہے، اپنے خود ساختہ اصولوں کی بنیاد پر ضعیف یا قرآن کے خلاف ہونے پر ظنی اور خبر واحد کہہ کر رد کردینا، جیسا کہ مولانا بنوری نے کہا ہے۔ یہ ان کا وہی وتیرہ ہے جو متعدد احادیث کے بارے میں انہوں نے اختیار کر رکھا ہے۔ حضرت مغیرہ کی حدیث صحیح ہے اور وہ قرآن کے خلاف نہیں ہے بلکہ قرآنی حکم (غسلِ رِجْلَین) کی مُخصِّص یا مُفسِّر ہے جس سے قرآن کے ایک حکم کی تخصیص یا تفسیر ہوتی ہے کہ اگر طہارت کی حالت میں موزے یا جرابیں پہنی گئی ہوں تو ان پر مسح کرنا جائز ہے، اس حالت