کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 75
ایک سہولت ہے جو اہل ایمان کو ایسی حالتوں میں دی گئی ہے جب کہ وہ کسی صورت سے پاؤں ڈھکنے پر مجبور ہوں اور بار بار پادوں دھونا ان کے لیے موجب نقصان یا وجہ مشقت ہو۔ اس رعایت کی بنا اس مفروضے پر نہیں ہے کہ طہارت کے بعد موزے پہن لینے سے پاؤں نجاست سے محفوظ رہیں گے۔ اس لیے ان کے دھونے کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔ بلکہ اس کی بنا اللہ کی رحمت ہے جو بندوں کو سہولت عطا کرنے کی مقتضی ہوئی۔ لہٰذا ہر وہ چیز جو سردی سے یا راستے کے گرد وغبار سے بچنے کے لیے یا پاؤں کے کسی زخم کی حفاظت کے لیے آدمی پہنے اور جس کے بار بار اتارنے اور پہننے میں آدمی کو زحمت ہو اس پر مسح کیا جاسکتا ہے خواہ وہ اونی جراب ہو یا سوتی، چمڑے کا جوتا ہو یا کرمچ کا، یا کوئی کبڑا ہی ہو جو پاؤں پر لپیٹ کر باندھ لیا گیا ہو۔
میرے نزدیک دراصل یہی معنی مسح علی الخفین وغیرہ کی حقیقی روح ہیں اور اس روح کے اعتبار سے وہ تمام چیزیں یکساں ہیں جنھیں ان ضروریات کے لیے آدمی پہنے جن کی رعایت ملحوظ رکھ کر مسح کی اجازت دی گئی ہے۔‘‘[1]
امام ابو حنیفہ کا طرز عمل اور فقہائے احناف کا جمود
یہی وہ حقیقی روح تھی جو بیماری میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی سمجھ میں آگئی تھی اور انہوں نے اپنے رائے سے رجوع کرکے جرابوں پر مسح کرلیا، جس میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ وہ جرابیں کس قسم کی تھیں ؟ ظاہری بات ہے وہ مُجلّدَیْن یا مُتعَّلَیْن نہیں تھیں جن کی وہ اس سے پہلے شرط لگایا کرتے تھے۔ مُجلّدَیْن، وہ موزے جن کے اوپر نیچے چمڑا ہو اور مُنَعَّلَیْن، وہ موزے جن کا صرف نچلا حصہ چمڑے کا ہو۔
[1] رسائل ومسائل: 158,157/2۔ ملخصًا۔