کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 73
امام ابو حنیفہ کا اپنے رائے سے رجوع کرنے کا ذکر امام ترمذی نے بھی اپنی جامع ترمذی میں کیا ہے جو مصری محدث ومحقق کے نسخۂ ترمذی میں موجود ہے اور علامہ بنوری نے بھی اپنی شرح ’’معارف السنن‘‘ میں اس کو تسلیم کیا ہے۔
اس کے بعد تو فقہائے احناف کو جرابوں پر مسح کرنے سے انکار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ان کے تینوں بڑے امام اس کے قائل ہیں اور فتوی بھی اسی رائے پر ہے۔اس کے بعد انکار کا کیا جواز ہے؟
شخافت کا مسئلہ: باقی رہا مسئلہ شخافت، یعنی موٹی ہونے کا کہ صاحبین کے نزدیک یہ جواز تب ہے جب جرابیں موٹی ہوں ، باریک نہ ہوں ۔ یہ مسئلہ بھی ثخافت کی اس تعریف سے حل ہوجاتا ہے جو خود فقہاء نے کی ہے۔
وہو ان یستمسک علی الساق من غیر ان یربط بشیٔ۔
’’ثخین (موٹی) سے مراد وہ جراب ہے جو پنڈلی پر، کسی چیز کے ساتھ باندھنے کے بغیر، ٹھہر جائے۔
والثخینَین ما یستمسک بالقدم من غیر رباط۔
’’موٹی جرابیں وہ ہیں جو پیر کے ساتھ بغیر کسی رسی (وغیرہ) کے باندھے، ٹھہر جائیں ۔‘‘[1]
اس تعریف کی رُو سے ہر قسم کی جُرّاب، چاہے وہ اونی ہو یا سوتی یا نائیلون کی، موٹی ہو یا پتلی، ہر جراب پاؤں اور پنڈلیوں پر خودبخود ٹھہر جاتی ہے، اسے کسی چیز سے باندھنا نہیں پڑتا۔
اس مسلمہ تعریف کے بعد موٹی اور پتلی کی بحث کا بھی کوئی جواز نہیں رہتا، ہر قسم کی جراب پر جو قدم کو ڈھانکے اور جلد نظر نہ آئے۔ مسح کا جواز ثابت ہوجاتا ہے۔ احادیث میں تو پہلے ہی
[1] معارف السنن: 346/1۔