کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 61
اور حکمی نجاست سے پاک ہونے کا مطلب ہے کہ انسان خود بھی پاک ہو، یعنی اس پر غسل واجب ہو تو پہلے پاک پانی سے غسل کرے، غسل واجب نہ ہو تو وضو کرے۔ پاک پانی کا مطلب : پانی کو اللہ نے پاک ہی بنایا ہے، یہ گویا پاک بھی ہے اور پاک کرنے والا بھی۔ پانی کے قدرتی ذرائع سمندر، دریا، چشمے اور کنویں ہیں ۔ ان کا پانی چونکہ جاری ہوتا ہے، اس لیے ان میں بدبودار اشیاء بھی گر جائیں تو پانی ناپاک نہیں ہوتا، پاک ہی رہتا ہے۔ ہاں اگر ان اشیاء کی وجہ سے پانی کا رنگ یا ذائقہ یا بو تبدیل ہو جائے تو پانی ناپاک ہو جائے گا۔ کھڑے پانی کا رنگ و بو اور ذائقہ اگر محض زیادہ دیر تک کھڑا رہنے کی وجہ سے تبدیل ہو جائے تو بالاتفاق وہ پاک کرنے والا ہے۔ اس سے وضو اور غسل کرنا جائز ہے۔[1] اور ایسے ہی اگر تبدیلی کسی ایسی پاک چیز کے اختلاط سے واقع ہو جس سے پانی کو محفوظ کرنا مشکل ہو تو جب تک اس پر پانی کا اطلاق ممکن ہو تب تک اس کی پاکی باقی ہے۔ یہ حنفیہ، شافعیہ، حنابلہ اور عراقی مالکیوں کا مذہب ہے، اس کو ابن رشد ، ابن حزم اور ابن تیمیہ رحمہم اللہ وغیرہ نے بھی راجح قرار دیا ہے۔[2] تاہم اگر پانی کے رنگ و بو اور ذائقہ میں تبدیلی کسی نجس چیز کی وجہ سے ہو تو وہ بالاتفاق نجس ہے۔[3] دوسری صورت پانی کے ناپاک ہونے کی یہ ہے کہ پانی اگر دو مٹکوں (پانچ مشکوں یا تقریباً 227 کلو پانی) سے کم ہو اور اُس میں گندگی گر جائے تو وہ پانی بھی ناپاک ہو جائے گااور اس سے وضو کرنا جائز نہ ہو گا۔ 2. دوسری شرط، سترِ عورت : یہ دوسری شرط ہے اور اس کا مطلب، جسم کے ان حصوں کو چھپانا ہے جن کا چھپانا ضروری ہے۔
[1] المغنی: 23/1 بتحقیق الترکی، مجموع الفتاوی: 36/21۔ [2] مجموع الفتاوی: 24/21۔ [3] مجموع الفتاوی: 26/21۔