کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 50
’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے پیچھے اس نوجوان (عمر بن عبد العزیز) جیسی نماز نہیں پڑھی جو اس سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہو۔ انہوں نے کہا: ہم نے اندازہ لگایا کہ انہوں نے رکوع میں بھی دس تسبیحات پڑھیں اور سجدے میں بھی دس تسبیحات پڑھیں ۔‘‘[1]
امام صاحب رحمہ اللہ کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز ہر صورت میں اعتدال اور اطمینان کے ساتھ پڑھنی بھی ہے اور پڑھانی بھی ہے، البتہ اکیلے پڑھتے وقت اعتدال کی کوئی حد نہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام، رکوع، قومہ، سجدہ، دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا، یہ سارے ارکان عام طور پر تقریباً برابر ہوتے تھے جیسا کہ احادیث میں اس کی وضاحت ہے۔ اور جب کوئی امام ہو تو اس وقت مقتدیوں کا خیال رکھتے ہوئے نماز پڑھانی ہے کیونکہ ان میں ضعیف، بیمار، بوڑھے اور ضرورت مند بھی ہوتے ہیں ، خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم معمول کے مطابق نماز پوری یکسوئی کے ساتھ پڑھانے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن جب آپ کو بچے کے رونے کی آواز آجاتی تو آپ نماز میں تخفیف فرمادیتے تھے۔ لیکن تخفیف کا مطلب وہ نہیں جو آج کل سمجھ لیا گیا ہے کہ پوری نماز، تو چل میں آیا، کے انداز میں پڑھادی جائے بلکہ تخفیف کا مطلب قراء ت میں اختصار ہے (جیسا کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے واقعے سے واضح ہے) اور رکوع، سجود، قومہ، قعود بین السجدتین، وغیرہ سارے ارکان اطمینان کے ساتھ ادا کرنے ہیں ، جیسے عمر بن عبد العزیز، اس دَور کے طریقے کے مطابق بہ حیثیت گورنر، امامت فرماتے تو رکوع سجود میں دس دس تسبیحات تقریباً پڑھتے، گویا امام کے لیے بھی ضروری ہے کہ مقتدیوں کا خیال رکھنے کی تاکید کے باوجود نماز میں اعتدال و اطمینان کا خیال رکھے اور تخفیف کے نام پر اعتدال ارکان کی اہمیت کو نظر انداز نہ کرے۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو یہ فرمان ہے کہ نماز کو لمبا کرنا اور خطبے میں اختصار کرنا سمجھ داری کی
[1] ملخص از فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ: 597,594/22، طبع قدیم۔