کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 49
بقرہ کی تلاوت کی، اس لیے آپ نے ان سے فرمایا:
’’جب تم میں سے کوئی شخص تنہا نماز پڑھے تو جتنی لمبی چاہے نماز پڑھے۔‘‘
اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو ، جنہوں نے عشاء کی نماز میں سورۂ بقرہ پڑھی تھی، فرمایا تھا کہ کیا تم لوگوں کو فتنے میں ڈالناچاہتے ہو۔ تم سورۃ اللیل، سورۃ الشمس وغیرہ پڑھا کرو۔
لوگوں نے طوالت کی مقدار کو بھی نہیں پہچانا اور نہ اس طوالت کو سمجھا جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا اور اپنی طرف سے ایک متعین مقدار کو مستحب قرار دے لیا، جیسے رکوع، سجود میں کم از کم تین مرتبہ تسبیحات پڑھنا، حالانکہ امام کے لیے تین مرتبہ تسبیحات پر اقتصار کرنے کو سنت قرار دینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ رکوع کے بعد اعتدال کو لمبا نہ کرنا سنت ہے یا نماز کو آخری وقت تک مؤخر کرنا سنت ہے، وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ ان کے پاس ان کاموں کو سنت قرار دینے کی کوئی اصل نہیں ہے۔بلکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آپ اپنی غالب (اکثر) نمازوں میں تین مرتبہ سے زیادہ تسبیحات (سبحان ربی العظیم، سبحان ربی الاعلیٰ، وغیرہ) پڑھتے تھے۔
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ ، جن کو پانچواں خلیفۂ راشد قرار دیا جاتا ہے، یہ خلیفہ بننے سے پہلے جب مدینے کے گورنر بنے( ولید بن عبد الملک کی خلافت میں ) تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ان کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے فرمایا:
مَا صَلَّیْتُ وَرَائَ اَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اَشْبَہَ صَلَاۃً بِرَسُولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مِنْ ہٰذَا الْفَتٰی یعنی عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعزیز۔ قَالَ: فَحَرَزْنَا فِی رَکُوعِہِ عَشْرَ تَسْبِیحَاتٍ وَ فِی سُجُودِہِ عَشْرَ تَسْبِیحَاتٍ۔ رواہ سنن أبي داود والنسائي۔