کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 48
جاتا ہے، چنانچہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے بے مثال فہم و تفقہ سے نہایت عمدہ پیرائے میں اس مسئلے کو بھی حل فرمایا ہے۔ امام صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : تخفیف، ایک اضافی، نسبی امر ہے، اس کی کوئی حد نہ لغت میں ہے اور نہ عُرف میں ، اس لیے کہ ایک چیز کچھ لوگوں کو لمبی لگتی ہے جبکہ کچھ دوسرے اس کو ہلکا سمجھتے ہیں ۔ کسی چیز کو بعض ہلکا سمجھتے ہیں جبکہ دوسروں کے نزدیک وہ لمبی ہوتی ہے۔ پس یہ ایسا معاملہ ہے کہ لوگوں کی عادات اور عبادات کی مقادیر کے اختلاف کے ساتھ ساتھ مختلف ہوتا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ تخفیف اور طوالت کا فیصلہ بھی وہ سنتِ نبوی ہی کی روشنی میں کرے اور سنت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تخفیف کا حکم، آپ کے تطویل کے حکم کے منافی نہیں ہے، یعنی ان دونوں حکموں میں منافات یا تضاد نہیں ہے۔ دونوں کا اپنا اپنا محل ہے۔ اس محل اور پس منظر ہی میں دونوں حکموں کو رکھ کر دیکھنا چاہیے۔ جیسے حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ طُولَ صَلَاۃِ الرَّجُلِ وَقِصَرَ خُطْبَتِہِ مَئِنَّۃٌ مِنْ فِقْہِہِ، فَاَطِیلُوا الصَّلَاۃَ وَاَقْصِرُوا الْخُطْبَۃَ)) ’’آدمی کالمبی نماز پڑھانا اور خطبہ مختصر دینا، اس کے سمجھ دار ہونے کی علامت ہے، پس تم نماز لمبی کرو اور خطبہ مختصر کرو۔‘‘ اس حدیث میں نمازکو لمبا کرنے کا جبکہ اس سے ماقبل کی حدیث میں تخفیف (ہلکی کرنے) کا حکم تھا، ان میں منافات (ایک دوسرے سے تضاد) نہیں ہے، اس لیے کہ طوالت کا حکم خطبے کے مقابلے میں ہے اور ماقبل کی حدیث میں تخفیف کا حکم ان بعض ائمہ کے طرز عمل کے مقابلے میں ہے جس کا اظہار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ان سے ہوا کہ انہوں نے عشاء کی نماز میں سورۂ