کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 47
اس وجوب پر عمل کرلیا ہے، جیسے کسی شخص کو یہ تو یقین ہو کہ نماز یا زکاۃ اس پر واجب ہے لیکن اس کو یہ شک ہو کہ اس نے نماز پڑھ لی یا زکاۃ ادا کردی۔
مزید برآں ، اللہ تعالیٰ نے نماز کی حفاظت اور اس پر مداومت (ہمیشگی) کو واجب کیا ہے اور نماز کے ضائع کرنے اور اس سے تساہل برتنے کی مذمت کی ہے۔ جیسے سورۂ مومنون اور سورۂ معارج وغیرہما کی آیات میں ان کا بیان ہے (امام صاحب نے یہاں یہ آیات نقل فرمائی ہیں اور اس کے بعد فرمایا ہے) یہ آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ جو شخص نماز کے واجبات میں سے کوئی ایک چیز بھی چھوڑتا ہے تو وہ قابل مذمت ہے (نہ کہ قابل مدح) چاہے ظاہری طور پر وہ نماز پڑھنے والا ہی ہو، جیسے کوئی شخص وقتِ واجب کو چھوڑدے یا نماز کے ظاہری و باطنی اعمال میں سے ان کی شرائط و ارکان کی تکمیل کو ترک کردے۔[1]
امام کو تخفیف کرنے کا حکم اور اس کا مطلب
ایک نہایت اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((اِذَا صَلّٰی اَحَدُکُمْ لِلنَّاسِ فَلْیُخَفِّفْ فَاِنَّ فِیہِمُ الضَّعِیفَ وَالسَّقِیمَ وَالْکَبِیرَ، وَ إِذَا صَلّٰی اَحَدُکُمْ لِنَفْسِہِ فَلْیُطَوِّلْ مَاشَائَ))
’’جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی نماز پڑھائے، اس لیے کہ نمازیوں میں ضعیف، بیمار، بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور جب خود (تنہا) نماز پڑھے تو جتنی چاہے لمبی نماز پڑھے۔‘‘[2]
یہ مسئلہ بھی اکثر وبیشتر خلجان کا باعث بھی بنتا ہے اور تخفیف کے نام پر نماز کا حلیہ بھی بگاڑ دیا
[1] ملخصاً از مجموع الفتاوی، شیخ الاسلام امام ابن تیمیۃ: 572-547/22۔
[2] صحیح البخاري، الاذان، حدیث: 703۔