کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 46
اور ابوداود و نسائی میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ہمیں اطمینان و سکون اور اعتدالِ ارکان کے ساتھ چار رکعتیں پڑھائیں اورپھر فرمایا:
((ہٰکَذَا رَأَیْنَا رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلِّي))
’’ہم نے اس طرح ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘
اور اس طریقۂ نماز پر صحابہ کا اجماع ہے، اس لیے کہ وہ سب نہایت اطمینان سے نماز پڑھتے تھے اور جب وہ کسی ایسے شخص کو دیکھتے جو اطمینان سے نماز نہیں پڑھتا تو وہ اس پر نکیر کرتے اور اس کو اس سے منع فرماتے اور کوئی صحابی اس منع کرنے والے صحابی کو اس سے نہ روکتا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قولاً اور فعلاً صحابہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ نماز میں سکون و اطمینان واجب ہے۔ اگریہ سکون واجب نہ ہوتا تو صحابہ کبھی تو اس سکون و اطمینان کو ترک کردیتے جیسے وہ غیر واجب چیزوں کو (بعض دفعہ) چھوڑ دیتے تھے۔
علاوہ ازیں لغت عرب میں رکوع اور سجود کا معنی و مفہوم اس وقت ہی متحقق ہوتا ہے جب رکوع کے لیے جھکتے وقت اور چہرے کو زمین پر رکھتے وقت سکون و اطمینان کا اہتمام کیا جائے ورنہ محض جھک جانا اور سر کو زمین پر رکھ کر اٹھالینا، اس کا نام نہ رکوع ہے اور نہ سجدہ۔ اور جو اس کو رکوع اور سجدہ قرار دیتا ہے، وہ لغتِ عرب کے خلاف بات کرتا ہے۔ اس سے یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ لغتِ عرب سے اس کی دلیل پیش کرے۔ لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں ہے نہ اپنے موقف کے اثبات کے لیے اس کے پاس کوئی راستہ ہے۔ پس اس موقف کا قائل بغیر علم کے اللہ کی کتاب پربھی حرف زنی کرتا ہے اور لغتِ عرب پر بھی۔ اور جب اس امر ہی میں شک پڑجائے کہ واقعی یہ سجدہ کرنے والا ہے یا سجدہ کرنے والا نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا شخص بالاتفاق حکمِ سجدہ کی تعمیل کرنے والا نہیں ہے، اس لیے کہ یہ بات تو معلوم ہے کہ سجدہ واجب ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ سجدہ کرنے والے نے