کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 32
نماز میں اطمینان اور خشوع خضوع کی اہمیت، احادیث کی روشنی میں نماز، اسلام کا ہم ترین فریضہ ہے، اگر یہی سنتِ نبوی کے مطابق نہ ہوئی جس کی بابت روز قیامت سب سے پہلے باز پُرس ہوگی تو دوسرے عملوں کا اللہ ہی حافظ ہے، جیسے ایک صحابیٔ رسول حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ آتا ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جو رکوع سجود اطمینان سے نہیں کررہا تھا، جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو حضرت حذیفہ نے اس سے کہا مَا صَلَّیْتَ ’’تو نے تو نماز ہی نہیں پڑھی۔‘‘ راوی کا بیان ہے کہ میرے خیال میں حضرت حذیفہ نے اس کو یہ بھی کہا: ((لَوْ مُتَّ مُتَّ عَلٰی غَیْرِ سُنَّۃِ مُحَمَّدٍ)) ’’اگر تجھے (اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے) موت آگئی تو محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے طریقے پر تجھے موت نہیں آئے گی۔‘‘[1] بلکہ اسی طرح کا ایک واقعہ خود نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کا بھی ہے جس میں ہمارے لیے بڑی عبرت ہے۔ ایک شخص مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنے کے لیے آیا، نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرماتھے، اس شخص نے نماز پڑھی، آپ اس کو دیکھ رہے تھے، نماز سے فارغ ہوکر وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام عرض کیا، آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: ((اِرْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ)) ’’واپس جا اور پھر نماز پڑھ، اس لیے کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ وہ گیا اور جاکر دوبارہ نماز پڑھی، پھر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دے کر پھر فرمایا: ((اِرْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ))
[1] صحیح البخاري، الصلاۃ، حدیث: 389۔