کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 304
عورت، مذکرَّ مسنون الفاظ میں دعا مانگ سکتی ہے یا نہیں ؟
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ (مثال کے طور پر) ایک دعا ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے:
((اَللّٰھُمَّ اِنّیِ عَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدِکَ نَاصِیَتِي بِیَدِکَ…))
’’اے اللہ میں تیرا بندہ ہوں ، تیرے بندے کا بیٹا ہوں ، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے…‘‘
توایک عورت انہی الفاظ کے ساتھ یہ دعا کرتی ہے، کسی نے اس سے کہا کہ تو مذکر کے الفاظ کے بجائے مؤنث کے الفاظ میں اس طرح دعا کیا کر:
((اَللّٰھُمَّ اِنّیِ اَمَتُکَ، بِنْتُ اَمَتِکَ… آخر تک))
’’اے اللہ! میں تیری باندی ہوں ، تیری باندی کی بیٹی ہوں …‘‘
اس نے کہا: میں تو انہیں الفاظ میں دعا کروں گی جو احادیث میں آئے ہیں ، چاہے وہ مذکر ہی کے صیغے ہیں ۔ اس عورت کے اس رویے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
اس کے لائق تو یہی ہے کہ وہ مؤنث کے صیغوں میں اس طرح دعا کرے:
((اللھم انی اَمَتُکَ، بِنْتُ عَبْدِکَ، ابنُ اَمَتِکَ))
’’اے اللہ! میں تیری باندی ہوں ، تیرے بندے کی بیٹی ہوں جو تیری باندی کا بیٹا ہے۔‘‘
ان الفاظ میں دعا کرنا زیادہ اچھا اور اَوْلیٰ ہے۔ اور اگر وہ مذکر ہی کے صیغے استعمال کرتی ہے: انی عبدک تو عربی زبان میں لفظ زَوْج کی طرح اس کی بھی گنجائش ہے، یعنی زَوْج عربی میں خاوند کو بھی کہہ لیتے ہیں اور بیوی کے لیے بھی اسے استعمال کر لیا جاتا ہے، اسی طرح