کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 302
اَرْفِدہ! کھیلو۔‘‘ یہاں تک کہ جب میں تھک گئی تو آپ نے فرمایا: ’’بس‘‘ میں نے کہا: ہاں ۔ آپ نے فرمایا ’’چلی جاؤ۔‘‘[1]
اس حدیث سے اس بات کا جواز معلوم ہوتا ہے کہ عید کے موقعے پر اگر چھوٹی بچیاں دف بجا کر قومی ترانے، ملی نغمے یا اور اسی قسم کے اشعار اظہارِ فرحت کے طور پر گا لیں تو اس کی اجازت ہے۔
اسی طرح یہ بھی ثابت ہوا کہ قومی قسم کے کھیل بھی اس موقعے پر کھیلے جاسکتے ہیں ۔ یہ حبشیوں کا ایک کھیل ہوا کرتا تھا جس میں وہ نیزہ بازی کے ذریعے سے کرتب دکھایا کرتے تھے اور اسلام نے ایسے کھیلوں کی اجازت دی ہے جن سے جنگی مہارت حاصل ہو۔ یہ بھی ایک ایسا ہی مظاہرئہ مشق ہوتا تھا۔ اس کو بعض راویوں نے ’’زفن‘‘ سے تعبیر کیا ہے جس کے لغوی معنی رقص اور اچھل کود کے ہیں ۔ لیکن یہ وہ رقص نہیں ہے جو آج کل فلموں ، ڈراموں اور مختلف علاقائی روایات میں نظر آتا ہے بلکہ یہ گتکہ بازی کی طرح کا ایک کرتب تھا جس میں اچھل کود ہوتی تھی، اس کا موجودہ دور کے مختلف رقصوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اس قسم کے مردانہ کھیل، جن میں جسمانی ورزش اور جنگی مہارت کے مظاہرے ہوں ، پردے کی اوٹ میں عورتیں بھی دیکھ سکتی ہیں ۔
رائی کو پربت بنانے والوں کا طرز عمل
یہ چند باتیں ہیں جو مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتی ہیں لیکن جو شرعی حدود کے دائرے میں رہنا پسند نہیں کرتے، وہ سوئی کو کلہاڑی اور رائی کو پربت بنا دیتے ہیں اور بچیوں کے اظہارِ فرحت کو پیشہ ور مغنیات، ڈھول ڈھمکوں اور بینڈ باجوں کے لیے وجہ جواز بنا لیتے ہیں ، حالانکہ
[1] صحیح البخاري، العیدین، باب: 1، حدیث: 950,949۔