کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 301
میں جاکر ان کو بھی وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے کیونکہ اس زمانے میں یہ آلۂ مکبر الصوت (لاؤڈ سپیکر) تو تھا نہیں ۔ آپ کے وعظ و نصیحت سے متأثر ہو کر عورتیں صدقہ و خیرات کا بھی اہتمام کرتی تھیں ۔
اب لاؤڈ سپیکر کی ایجاد نے عورتوں کو الگ سے خطاب کرنے کی ضرورت کو تو ختم کر دیا ہے تاہم علماء کو چاہیے کہ وہ اس کی جگہ اپنے خطبۂ عید میں ایسے ضروری مسائل ضرور بیان کیا کریں جن کی بالخصوص عورتوں کو زیادہ ضرورت ہے۔ جیسے پردے کی پابندی، حسن و جمال کی نمائش سے اجتناب، خاوند کی اطاعت و فرماں برداری، وغیرہ۔
علاوہ ازیں عورتوں کو اس دن صدقہ و خیرات کا بھی خصوصی اہتمام کرنا چاہیے جیسے صحابیات رضی اللہ عنہن کیا کرتی تھیں ۔
عید کے موقعے پر چھوٹی بچیوں کے لیے خوشی کے اظہار کی اجازت
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (عید کے دن) میرے پاس تشریف لائے، (اس وقت) میرے پاس دو بچیاں (زمانۂ جاہلیت کی جنگِ) بُعاث سے متعلقہ اشعار گا رہی تھیں ۔ آپ اپنا منہ پھیر کر بستر پر لیٹ گئے۔ اتنے میں ابو بکر آگئے اور دیکھ کر مجھے ڈانٹنے لگے اور فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ شیطانی باجہ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر کی بات سن کر فرمایا: ’’ان بچیوں کو چھوڑ دو۔‘‘ (ان کو خوشی کا اظہار کرنے دو) ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غافل ہونے پر میں نے ان بچیوں کو اشارہ کیا، چنانچہ وہ چلی گئیں ۔ اور یہ عید کا دن تھا، اس دن سوڈانی بھی برچھیوں اور ڈھالوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا آپ نے خود ہی فرمایا: ’’تم یہ کھیل دیکھنا چاہتی ہو؟‘‘ میں نے کہا: ہاں ۔ آپ نے مجھے اپنے پیچھے اپنی پشت پر اٹھا لیا، میرا رخسار آپ کے رخسار پر تھا اور آپ فرما رہے تھے: ’’اے ابن