کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 299
’’ہمیں حکم دیا جاتا تھا کہ ہم عید کے دن (نماز کے لیے) جائیں ، حتی کہ دو شیزاؤں کو بھی ان کے گھروں سے نکال کر لے جائیں بلکہ حائضہ عورتوں کو بھی۔ پس وہ لوگوں کے پیچھے رہیں ، ان کی تکبیرات کے ساتھ تکبیریں بلند کریں ، ان کی دعاؤں کے ساتھ دعائیں مانگیں ، اس دن کی برکت اور پاکیزگی کی امید رکھیں ۔‘‘[1] ان روایات سے حسب ذیل باتوں کا اثبات ہوتا ہے۔ ٭ نمازِ عید کا اجتماع مسجد سے باہر کھلے میدان عید گاہ (مصلّٰی) میں ہونا چاہیے۔ ٭ اس میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شریک ہوں ، بوڑھی بھی جوان بھی شادی شدہ بھی اور غیر شادی شدہ بھی، حتی کہ حائضہ عورتیں بھی۔ ٭ حائضہ عورتیں نماز میں شریک نہیں ہوں گی کیونکہ ایامِ حیض میں ان کے لیے نماز پڑھنا ناجائز ہے۔ ٭ وہ دعاؤں میں شریک ہوں گی کیونکہ دعا کے لیے پاکیزگی شرط نہیں ہے۔ ٭ عورتیں بھی تکبیرات پڑھیں لیکن آواز اتنی زیادہ اونچی نہ رکھیں کہ مردوں تک ان کی آواز جائے۔ ٭ نمازِ عید کے اجتماع میں شرکت خیرو برکت کا باعث ہے، عورتیں بھی اس سے محروم نہ رہیں ۔ نمازِ عید کے لیے جانے والی عورتیں پردے کی پابندی کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح نماز عید کے اجتماع میں شرکت کے لیے عورتوں کو تاکید فرمائی ہے، اسی طرح عورتوں کو گھروں سے باہر نکلتے وقت پردے کا نہایت سختی کے ساتھ حکم دیا گیا ہے۔ بنابریں ضروری ہے کہ عورتیں عید گاہ میں جاتے وقت:
[1] صحیح البخاري، العیدین، باب التکبیر ایّامَ منیٰ واذا غدا الیٰ عرفۃ، حدیث: 971۔