کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 297
جائز نہیں ہو گا جس سے منع کر دیا گیا ہے اور جس سے منع کیا گیا ہے، وہ صرف نماز کے وقت سر کو ننگا رکھنا ہے۔ بنا بریں عورت گھر کے اندر بھی ننگے سر نماز نہیں پڑھے گی، اگر پڑھے گی تو وہ عنداللہ مقبول نہیں ہو گی۔ اگر سر کی طرح نماز میں منہ، ہاتھوں اور پیروں کا ڈھانپنا بھی ضروری ہوتا تو سر کے ڈھانپنے کی طرح ان کو بھی ڈھانپنے کا حکم دیا جاتا۔ جب ایسا کوئی حکم ثابت نہیں ہے تو عورت کے لیے گھر کے اندر نماز پڑھتے وقت صرف شلوار، قمیص اور اوڑھنی ضروری ہے۔ ہاتھوں کو ڈھاپننے کے لیے دستانے اور پیروں کو ڈھانپنے کے لیے جرابیں اور موزے ضروری نہیں ہیں ، البتہ عورت اگر ایسی جگہ نماز پڑھے، جہاں غیر محرم مردوں کی نظریں اس پر پڑ سکتی ہوں تو وہاں عورت کے لیے پردے کے عمومی حکم کے تحت ہاتھوں ، پیروں اور چہرے کا پردہ بھی ضروری ہو گا۔ ایک وضاحت: حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہ بند کا ذکر فرمایا تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا کہ عورت اپنا ازار (تہ بند یا شلوار وغیرہ) کتنا لمبا کرے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ایک بالشت لٹکا لے‘‘ یعنی آدھی پنڈلی سے ایک بالشت نیچے تک لٹکا لے۔ حضرت ام سلمہ نے پوچھا: اس سے تو اس کے پاؤں ننگے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ایک ہاتھ لٹکا لے، اس سے زیادہ نہ کرے۔‘‘[1] بعض لوگ اس سے استدلال کرتے ہوئے عورت کے پیروں کے ڈھانپنے کا حکم دیتے ہیں ۔ اس حدیث سے بلاشبہ یہ حکم نکلتا ہے لیکن اس کا تعلق اُس پردے سے ہے جو گھر سے باہر نکلتے وقت اس کے لیے ضروری ہے، اسی لیے امام ابو داود وغیرہ نے اسے کتاب اللباس میں نقل کیا ہے، نماز سے اس کا تعلق نہیں ہے، البتہ گھر سے نکلتے وقت عورت کے لیے ایسے پردے کی تاکید ہے جس میں ہاتھ ننگے ہوں نہ پیر اور نہ کوئی اور جسم کا حصہ۔
[1] سنن أبي داود، اللباس، بابٌ فی قدر الذیل، حدیث: 4117۔