کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 294
تاہم جب تک یہ صورت حال برقرار رہتی ہے، اضطرار کی وجہ سے شاید قابل معافی ہو۔ کیونکہ کوئی بھی نماز کے وقت یہ اختلاط پسند نہیں کرتا اور جب یہ ہو جاتا ہے تو کوئی بھی اس سے بچنے پر قادر نہیں ہوتا۔ عورتوں کے لیے اذان و اقامت کا حکم عورتیں اگر باجماعت نماز پڑھیں ، یعنی عورت ہی کی امامت میں تو ان کے لیے اذان اور اقامت ضروری ہے یا نہیں ؟ اس کی بابت کوئی نصِّ شرعی تو نہیں ہے، البتہ صحابہ و تابعین کے آثار (اقوال) ہیں جن میں بعض نے اذان و اقامت کو ناجائز کہا ہے اور بعض نے صرف اقامت (تکبیر) کا جواز تسلیم کیا ہے اور بعض نے دونوں ہی کو جائز قرار دیا ہے بشرطیکہ اتنی آہستہ آواز کے ساتھ دیں کہ مردوں تک آواز نہ پہنچے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اذان کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو اس لیے دیا ہے کہ وہ باجماعت نماز ادا کریں اور عورتوں کو باجماعت نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ لیکن اگرعورتیں بھی باجماعت نماز ادا کریں تو وہ بھی اگر اذان اور اقامت کااہتمام کر لیں تو اچھی بات ہی ہے، علاوہ ازیں یہ بھی اللہ کا ذکر ہی ہے، اس سے عورتوں کو کس طرح روکا جاسکتا ہے؟[1] بہر حال اگر عورتیں آہستہ آواز سے اذان و اقامت کا اہتمام کر لیں تو اس کا جواز ہی معلوم ہوتا ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے عمل سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ امام طاؤس رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : ’کَانَتْ عَائِشَۃُ تُؤَذِّنُ وتُقِیمُ‘ ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اذان و اقامت خود کہہ لیا کرتی تھیں ۔‘‘تاہم یہ ان کے لیے ضروری نہیں ہے۔ واللّٰہ أعلم
[1] مصنف عبدالرزاق، الصلاۃ، باب ھل علی المرأۃ اذان وقامۃ، 126/3، حدیث: 5016-5015۔